گبریئل گارسیا مارکیز کا ناول ”تنہائی کے سو سال “ماکندو کی تخیّلاتی سرزمین پر تخلیق شدہ جنّت کے جہنم میں تبدیل ہونے تک کا طویل سفر ہے، جو ہمیں لاطینی امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کی چکّی میں پسے ہوئے اور جبر کے موٹے بوٹوں تلے دبے ہوئے متحیّر اور دقیانوسی لوگوں کے دکھ سکھ ، احساسات اور عقائدسے ہی نہیں روشناس کرواتا، بلکہ ہمیں ہمارے اردگرد کی دنیا کو ایک نئے رنگ میں دکھاتا ہے۔ اس بات کا مشاہدہ بہت دلچسپ ہے کہ کیسے سات سمند پار لکھا جانے والا یہ ناول ہمارے معاشرے کے فکری ، نظریاتی اور حسیّاتی تاروپود کو اپنی بنت میں سموئے ہوئے ہے ۔ اس بات کا اعتراف چلی کی قلم کار ازابیل الاندے نے بھی کیاتھا کہ گارسیا کی کتابوں میں انہوں نے اپنے خاندان ، ملک اور اپنے لوگوں کو پایا دوران ِ مطالعہ میں اس بات کو محسوس کیے بنا نہیں رہ سکی کہ تخلیق کار کی ذات کا سفر کائنات کا سفر ہے ، اس کا ذاتی تجربہ آفاقی تجربہ ہے اور اس کا احساس ہمارے اجتماعی احساسات کا آئینہ دار ہے ۔ اور اگر کسی تخلیق میں یہ خصوصیت نہیں ہے تو وہ تخلیق ادھوری ہے۔
میتھیوآرنلڈ نے ہومر ، دانتے، ، ملٹن اور شیکسپیئر کے ہاں جو ’ ہائی سیریس نس ‘ دیکھی تھی، وہ سنجیدگی موت اور زندگی سے آدمی اور آدمی سے خدا کے تعلق کی حقیقت جانچنے تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہ سنجیدگی انسان کی نفسیات کی تہہ در تہہ گتھیاں اور پیچ در پیچ گرہیں کھولنے پر مامور تھی۔ اور یہی ہے حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا وہ یکتا ہنر جو غالب کو انسانی نفسیات کا گہرا علم عطا کرکے اسے اردو شاعری کاامام بنا دیتا ہے ۔
بات ہو رہی تھی گارسیا کے ناول کی ! ماکندو کی دور افتادہ، پر سکون اور غیر ترقی یافتہ سرزمین پر ماڈرن دنیا کی ….نئی ایجادات کے پہلے پہل پہنچنے پر وہاں کے معصوم اور انجان لوگوں کی حیرانی و پریشانی کا حال پڑھ کرمجھے اپنی نانی ماں کی تحّیر میں ڈوبی ہوئی یادیں اور تجسّس میں ڈوباہوا لہجہ یاد آ گیا، اور ساتھ ہی خیال آیا کہ اس ناول میں پیش کردہ سماجی مسائل اور فکری پیچیدگیاں ہی ہماری سوسائٹی کی آئینہ دار نہیں، بلکہ یہ ناول ہمارے صدیوں پرانے توہّمات ، تخیّلات اور فرسودہ روایات کا بھی عکّاس ہے ۔ ارسلا اور جوزے ارکیدو بوئندا کے خاندان میں پیدا ہونے وا لے اگونے ( سؤر کی دم والے ) بچوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے میں نصف صدی پہلے کے حیدآباد دکن پہنچ گئی جہاں میں نانی کی معصوم آنکھوں سے رات کی تاریکی میں ایک پرانی حویلی کے بڑے سے صحن میں ایستادہ نیم کے جھاڑ پر بیٹھی دراز بالوں ، الٹے پیروں اور چھوٹے چھوٹے سینگوں والی پچھل پیری کو دیکھ سکتی ہوں۔ نانی کی سنائی ہوئی وہ پوری کہانی جس کے مطابق نانی کے بڑے بھائی جان کا موٹی موٹی کتابوں سے بھرا ہوا جو پراسرار کمرہ لمبی لمبی سنسان راہ داریوں اور بیسیوں خالی کمروں کے درمیان واقع تھا ، اس خاموش کمرے کی دیواروں پر سے مکڑی کے جالے جھاڑنا بے سود تھا کیونکہ مکڑیاں ایک رات میں ہی نہ جانے حویلی کے کن نادیدہ گوشوں سے نکل آتیں اور پہلے سے زیادہ تیزی سے جالے بننے لگتیں ۔ اور یہ سن کر تو ہم بہن بھائیوں کی کپکپی چھوٹ جاتی کہ نانی نے بھائی جان کے کمرے کی دیوار پر ایستادہ qd< آدم آئینے میں کئی بار اس الٹے پیروں والے والی پچھل پیری کو اپنے گھٹنوں تک لمبے بالوں میں کنگھی کرتے دیکھا تھا۔ اس کہانی کے مطابق نانی کے بھائی جان آہستہ آہستہ اپنے خاندان سے لا تعلق سے ہونے لگے ۔ انہوں نے تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی ۔ پھر ایک شام وہ لمبا سا سرخ گھونگٹ نکالی ہوئی اپنی دلہن کو گھر لے آئے۔ نانی کے امّاں ابّا جو سارے دم درود اور تعویذ گنڈے اپنے بڑے بیٹے پر آزما کر تھک ہار چکے تھے ، اس منحوس دلہن کا منہ دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوئے، سو نو بیاہتا جوڑا خاموشی سے حویلی کے دوسرے حصّے میں منتقل ہو گیا۔ ۔نانی کے والدین نے اپنے بڑے بیٹے سے ناتا اس حد تک توڑ لیا کہ ملازموں کو بھی حویلی کے دائیں حصّے میں جانے کی اجازت نہ رہی۔جب اس طرف کی صفائی ستھرائی، پھول پودوں کی کاٹ چھانٹ اور ساز و سامان کی جھاڑ پونچھ کرنے والا کوئی نہ رہا تووہاں بلیّوں ، کبوتروں ، کوّوں ، مکڑیوں اور چمگاڈروں نے ڈیرا ڈال لیا۔
نانی نے اپنی امّاں جان سے نظربچا کرایک دو بار اُس لمبا سا گھونگٹ نکالی ہوئی دلہن کے گورے گورے ہاتھ اور گھٹنوں تک دراز لمبے بال تو دیکھے مگر اس کا سرخ گھونگٹ میں چھپا چہرہ اور ساڑھی کے فال میں چھپے ہوئے پاؤں وہ کبھی بھی نہ دیکھ پائیں۔ نانی بتاتی تھیں کہ حویلی کا دایاں حصّہ جو اب ان کے بھائی جان کی ملکیت تھا، نیم تاریکی میں ڈوبا رہتا ۔ ان کے بھائی جان کی آنکھیں اور چہرہ زرد پڑ چکا تھا۔ بھرا بھرا صحت مند جسم سوکھ کر بانس جیسا ہو گیا تھا۔ وہ پہلے بھی کم گو تھے اب تو آنکھوں سے بھی چھوٹی بہن کا سلام نہیں لیتے تھے۔ اس ان دیکھی دلہن سے نانی کے بھائی جان کی تین بیٹیاں ہوئیں جن کے سر پر گومڑے جیسے چھوٹے چھوٹے سینگ تھے اور وہ تنیوں ہی پیدائش کے کچھ دیر بعد نیلی پڑ گئیں !
اب بتائیں بھلا مارکیز جیسے وسیع المطالعہ ادیب اور مستعد صحافی کی بھید بھری کتھا پڑھ کر نانی کی گپ چھپ پراسرار کہانیاں کیوں کر یاد نہ آئیں ؟ لطف کی بات یہ ہے میری نانی کوئی ان پڑھ دیہاتن نہیں تھیں بلکہ ایک ماڈرن ، تعلیم یافتہ اور بلا کی خوش مزاج خاتون تھیں ۔ دلیپ کمار کی بہت بڑ ی فین۔ بیسیوں اخبار و رسائل منٹوں میں پڑھ لینا اور سہیلیوں کے ساتھ سنیما جا کر روز ایک شو دیکھنا ان کا معمول تھا۔ جب میں بڑی ہو گئی تو اکثر سوچتی کہ نانی جیسی تعلیم یافتہ باشعور خاتون اتنی غیر منطقی اور ماورائے عقل باتیں آخر کیوں کر کر لیتی تھیں ؟ (اس سے قطعِ نظر کہ میرے چھوٹے دادا سمیت تقریبا سبھی بزرگوں نے بھی خواب اور حقیقت میں بے شمار جنات اور بھوت پریت دیکھ رکھے تھے ۔)
ریل روڈ ، انجن ، دھواں ، فارنرز کا تکبّر ، مقامی لوگوں کی سادگی ،تشکیک اور تذبذب، جیسے یہ ریل روڈ لاطینی امریکہ کے خیالی گاؤں میں نہیں، نانی کے پڑوسی غفّار بھائی کے پانی پت میں بچھایا جا رہا ہو۔ نانی کو غفّار بھائی کے اباّ نے بتایا تھا کہ قصبے کے سیدھے سادھے لوگوں نے گھوڑا گاڑی، تانگے ، خچر اور بار برداری کے جانور تو دیکھ رکھے تھے مگر یہ ریل گاڑی کیا بلا ہے وہ نہیں جانتے تھے۔ اور جب انہوں نے ( گاؤں ) میں ریل کی پٹری بچھائے جانے کی خبر سنی، تو یار دوست اکٹھے ہوکر ریل گاڑی دیکھنے گئے۔ وہ سب ریل گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے مگر جونہی انہیں دیو جیسے کالے انجن والی کالا دھواں اڑاتی ٹرین پوری رفتار سے کسی طوفان کی طرح آگے بڑھتی دکھائی دی توسب کے سب مارے خوف و دہشت کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی نئی ایجادات ہمارے سادہ لوح اور دقیانوسی آباو اجداد کے لیے اتنا ہی اچنبھا تھیں جتنا کہ ماکندو کے بھولے بھالے باسیوں کے لیے۔ مثلاً نانی بتاتی تھیں کہ جب ہمارے ہاں بجلی نئی نئی آئی تو لوگوں کے انگریزوں کے خلاف شکوک و شہبات ایقان میں بدل گئے او ر انہیں یقین ِ کامل ہو گیا کہ بجلی مسلمانوں کی نسل کشی کا نیا حیلہ ہے اور کسی نہ کسی دن بجلی کی ساری تاریں بارود بن کر پھٹ جائیں گی ۔ لوگ بجلی کے کھٹکے کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرا کرتے تھے۔ وہ بلب کی پیلی روشنی کو انگریزوں کی کوئی نئی سازش سمجھتے تھے اور اس نئے جال میں ہرگز پھنسنا نہیں چاہتے تھے ۔
نانی یہ بھی بتاتی تھیں کہ مدھو بالا اور نرگس کے ہیجان خیز پوسٹر چومنے والے من چلوں میں سے اکثر یہ یقین رکھتے تھے کہ تصاویر بے روح نہیں ہوتیں ۔خاص کر ان بگڑے ہوئے مردوں کی بیویاں، جن میں نانی کی کچھ سہیلیاں بھی شامل تھیں، ان پوسٹرز کو اپنی سوتن تصور کرتی تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ کسی دن مدھوبالا حقیقت کا روپ دھار کر پوسٹر پھاڑ کر نکل آئے گی۔ ماکندو کے دقیانوسی لوگو ں کی طرح، تصویر کو ایک مقیّد لمحے کی یادگار سمجھنے کا رواج آج بھی ہمارے معاشرے میں کچھ عام نہیں ہے۔ زیادہ تر مذہبی گھرانوں میں آج بھی تصاویر دیوار پر سجانا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ تو’شرک ‘ سے بچنا اور دوسری بڑی وجہ قیامت کے دن ان تصاویر میں روح پھونکنے کی ذمّہ داری اٹھانے سے بچنا ہے ۔
کراچی میں نانی کے گلشن اقبال والے گھر کے کامن روم میں فریج کے اوپر ایک بڑا سا پلاسٹک کا گڈا رکھا ہوتا تھا۔ اس وقت ان کے درجنوں پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں کراچی کے مختلف اسکولوں ، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں زیرِ تعلیم تھے اور اپنی بے حد خیال رکھنے والی نانی دادی سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ میں بھی اسکول کی چھٹیوں کے دنوں میں اکثر ان کے ہاں رہنے چلی جاتی تو نانی کو پہروں اس گڈّے سے باتیں کرتا دیکھتی۔ اس دوران وہ اور بوڑھی دکھائی دیتیں۔ کبھی ہنس پڑتیں کبھی دوران ِ گفتگو ساڑھی کے پلو سے آنسو پونچھتی جاتیں ۔ میں نہیں جانتی یہ نانی کی تنہائی کا شاخسانہ تھا یا توہّم پرستی۔ مگر وہ نہ صرف دنیا سے پردہ کر جانے والے رشہ دار وں ، فرشتوں اور جنّات کی اپنے اطراف موجودگی محسوس کرتی تھیں بلکہ ان سے باتیں بھی کیا کرتی تھیں۔ یہ الگ بات کہ وہ اپنے آخری دور میں بھی خوبصورت ساڑھیوں ، کلاسیکی میوزک اور انڈین فلموں کی دلدادہ تھیں ۔ ارسلا کی طرح آنے والوں کا کھلے دل سے خیر مقدم کرنے والی اور اپنے پرائے کے لیے دستر خوان کشادہ کرنے والی میری نانی سیاست ، تعلیم، مذہب اور گھریلومسائل پر گھنٹوں جامع اور بھرپور گفتگو کیا کرتیں ۔
مارکیز کے ناول کی پراسرا ر فضا کی طرح نانی کے احساسات کی دنیا بھی بیک وقت سچائی کا دل چیرتے وقت تخیلاتی پناہ گاہیں تلاش کر لیتی۔ شاید ان کے لیے بھی ظاہری حقیقت کا لبادہ بہت تنگ تھا۔ ناول کے آخر میں جب ارلیانو کے نوزائیدہ بچے کو چیونٹیاں کھا لیتی ہیں تب تو میں باقاعدہ اپنے رونگٹے کھڑے ہوئے محسوس کر سکتی تھی کیونکہ انسانی ماس کھاتی ہوئی چیونٹیاں نانی کے گھر میں بھی دیکھی گئی تھیں، مگر وہ ماس کسی نومولود کا نہیں میرے تہجّد گزار نانا کا تھا جو فالج کے شدید حملے کے باعث بستر سے اٹھنے سے قاصر تھے ۔ آخری ایام میں شوگر بگڑی تو پیٹھ پر پھوڑا نکل آیا ۔ نانی کی بوڑھی آنکھیں اب اتنی کمزور ہو چکی تھیں کہ وہ نانا کے پیٹھ سے ہوتی ہوئی چیونٹیوں کی لمبی قطار کو دیوار سے ہوتے ہوئے کھڑکی سے باہر جاتا نہیں دیکھ پائیں !اور بعد میں جب ماموں نے چیونٹیوں کو نانا کی پیٹھ کاماس کھاتے دیکھا توان کی چیخیں نکل گئیں۔ اور پھر وہ درد ناک چیخیں نانا اور نانی کے انتقال کے بعد بھی مدّتوں خاندان میں گونجتی رہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ گیبریئل گارسیا مارکیز میری پیدائش سے بہت پہلے ان چیخوں کو سن اور سہہ کر لکھ بھی چکا ہے !
اس خوبصورت ناول کو پڑھنے کے بعد مجھے اس بات کا ایک بار پھر ادراک ہوا کہ انسان کسی خطّے میں بھی آباد ہو اس کی فطرت ایک ہی ہے۔دور کوئی بھی ہو اس کے مسائل ہمیشہ ایک جیسے ہی رہے ہیں۔تہذیب کوئی بھی ہو طبقاتی کشمکش ایک جیسی رہی ہے۔اور زبان کوئی بھی رہی ہو علم اور جہالت کی جنگ ہر مرحلے پر واقع ہوتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیبرئیل گارسیا مارکیز کے ناول کے آئینے میں میں اپنی نانی کے چہرے کا عکس بہت واضح دیکھ سکتی ہوں۔ اور شاید ایک ہزار سال بعد کا قاری بھی یہی بات محسوس کرے گا۔
Nice