ہم بڑے بڑے قومی المیوں کو مشترکہ ایونٹ کے طور پر منانے کے عادی ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی ہاؤہو، پرنٹ میڈیا کی بھرماراور سوشل میڈیا کی چکا چوند میں گم ہم لوگ اکھاڑے سے باہر بیٹھے ہوئے مجمع کی طرح ہیں، جہاں یکے بعد دیگرے کوئی نا کوئی تنازع، المیہ، مسئلہ کسی صحت مند پہلوان کی طرح اکھاڑے میں اچھلتا کودتا، لپٹتا جھپٹتا، پھڑپھڑاتا، لہو گرماتا تماشے کو جاری رکھتا نظر آتا ہے اور ہم عوا م اکھاڑے کے باہر بیٹھے، چیختے چلاتے، تالیاں بجاتے، گالیاں بکتے، منہ سے جھاگ نکالتے، لفظوں کے طوطا مینا اچھالتے، شور مچاتے جاتے ہیں اور جب ایک پہلوان کا کھیل ختم ہوتا ہے تو اسے بھول کر اگلے کی مخالفت یا حمایت میں نعرے بازی کرتے، اس کے نام کے بینر اور تصاویر ہوا میں اچھالتے ہیں اور یہ رونق میلہ یوں ہی لگا رہتا ہے۔
تسکین اور تشفّی کا یہ طریقہ بھی اتنا ہی قدیم اور لرزہ خیز ہے جتنا کہ آدمی کے ہاتھوں انسانی اعضا کو چبانے اور معصوم بچوں کو خداؤں اور نادیدہ قوتوں کی خوشی کے خاطر بھینٹ چڑھانے کا عمل۔ مارٹن لوتھر نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ہم تاریخ بنانے والے نہیں بلکہ تاریخ کی پیداوار ہیں۔
ان گنت دلوں کو صوفیانہ کلام سے گرمانے والے غلام فرید صابری کے گھرانے کے واحد روشن چراغ کے بجھ جانے پر سامنے آنے والا ردِ عمل بہت شدید تھا جس کی گونج ساری دنیا میں سنائی دی، مگر اس ردِعمل کے سوا ہمارے پاس دینے کو کیا ہے؟ سمجھنے اور سیکھنے کو کیا ہے؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے یہ تازہ المیہ بھی دیگر سانحات کی طرح جلد یا بدیر ہمارے ذہنوں سے محو ہو جائے گا۔ شاید ٹریجدی پیش ہی اس لیے کی جاتی ہے۔ جب ارسطو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب پوئیٹکس میں ٹریجڈی کسی ایسے عمل کو قرار دیا جو اہم اور مکمل ہو اور ایک مناسب عظمت (طوالت) رکھتا ہو جو مزّین زبان میں لکھی گئی ہو، جس سے حظ حاصل ہوتا ہو“ تو اس کے پیش نظر استاد کے اعتراضات اور یونان کے مخصوص سماجی اور سیاسی حالات تھے جن کی روشنی میں وہ نہ صرف معاصر فکری رجحانات کی تشفی کرتا ہے بلکہ المیے اور شاعری کی قدر و قیمت کو مستحکم کرتا ہے۔ پوئٹکس میں پیش کردہ مشہورِ زمانہ ٹریجڈی کے ذریعے کتھارسس کا تصور اسی لطف کا جواز مہیا کرتا ہے جو ارسطو کے خیال میں المیاتی منظر کو دیکھ کر خوف اور دردمندی کے احساسات کے بیدار ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔
ہزاروں سال پیشتر یونان میں دکھائے والے جانے والے تھیٹر کے ڈراموں اور ہمارے ہاں پیش کیے جانے والے حقیقی تماشوں میں کچھ مماثلت تو ضرور ہے۔ برنیزنے کہا تھا کہ ٹریجڈی کے ذریعے دہشت اور دردمندی کے ان جذبات کی جو انسانی مزاج میں بہت گہرے ہیں وقتی طور پر تشفی اور اصلاح ہو جاتی ہے اور انسان سکون محسوس کرتا ہے۔ امجد صابری کے قتل والا تازہ ٹریجڈی شو بھی ختم ہو چکا ہے او ر اب ہم پر سکون ہیں۔ عرب معاشرے کے خمیر سے تیار شدہ ہمارے مذہبی ڈھانچے میں فنون لطیفہ کے لیے گنجائش تھی ہی کہاں؟ سو ہم نے خود کو زندگی کے حقیقی اسٹیج سے ہی لطف کشید کرنے کے عادی بنا لیا۔
دراصل ہم نے مذہب اور رسم ورواج کی پابندی کے نام پر صدیوں سے اپنے لیے جو فکری محبس تیار کر رکھا ہے اس میں تھیٹر، رقص، موسیقی اور دیگر فنون اوّل تو صحت مندانہ انداز میں پنپ ہی نہیں سکے اور اگر کبھی کوئی انسانی روح اپنے فن اور فطری آزادی کے زیرِ اثر جھومنے، گانے، شعر کہنے، رنگ بکھیرنے، دھمال ڈالنے پر مجبور بھی ہو گئی تو اسے بڑا بھیانک خمیازہ بھگتنا پڑا، اور پھر صوفیانہ کلام پڑھنے والے امجد صابری کو تو آباو اجدا د کے کیے دھرے کا بھی خمیازہ بھگتنا تھا۔ کیوں کہ تصوّف کی آگ سینوں میں لگانا وہ بھی ناچ گا کر، تالیاں اور ڈھول پیٹ پیٹ کر، سنّی شیعہ کی تفریق بھلا کر صوفیانہ کلام گا کر مرد و زن کو وجد میں لانے والے، مجلسوں میں دھمال ڈالنے والے یہ کون گستاخ لوگ تھے جو دین خدا کو بدنام کرنے پر تل گئے تھے۔ یہ لوگ واقعی واجب القتل تھے، سو آزادی کی ان روایتوں کا امین دن دھاڑے اپنے ہی شہر کے پر رونق راستوں پر اپنی ہی محبوب زمین پر خون میں نہلایا گیا، بے دریغ، بے خوف۔ قاتل جانتا ہے کہ اس کے حامی یہاں ہزاروں لاکھوں میں ہیں، جو حامی نہیں ہیں، وہ تماش بین ہیں۔ وہ سانحہ پشاور ہو یا باچا خا ن یونیورسٹی کا الم ناک واقعہ یا پھر امجد صابری کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والی ٹریجڈی، عوام اپنے کتھارسس کا انتظام ہونے پر پرجوش اور پھر پرسکون ہو جائیں گے۔
ایک محدود لطف انگیزی شاید ان دکھوں کا کچھ ازالہ کر سکے جو زندگی نے ہم پر مسلط کیے ہیں۔ مگر عملی زندگی جس سنجیدگی اور قوت عمل کی متقاضی ہے اس کا احساس کس ہاؤہو میں گم ہے؟ کن رسومات، رویوں اور عقائد کی گرد کے نیچے دب گیاہے؟ ہم اس فکری محبس میں کب تک تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے؟ اس فکری محبس میں بیٹھے ہوئے لوگ آزادی کا مطلب کیا جانیں۔ وہ کیا جانیں کہ یہ زندگی یہ دنیا ہی کیا، جنت کا تصور بھی صر ف اور صرف آزادی کے تصور سے مشروط ہے، جہاں آپ وہ کر سکیں گے جو چاہتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے صدیوں پرانے جھوٹے آدرشوں، رسم ورواج اور عقائد کے خود ساختہ دائروں میں تیرتے رہیں گے، ہمارے فکر و احساس پر بے حسی اور بے چارگی کی بے وقار بیڑیاں پڑی رہیں گی، سو، چراغ فکر جلاؤ، بڑا اندھیرا ہے۔
آزادی کسی مخصوص جغرافیائی خطے پر اپنی مرضی کا جھنڈا گاڑ کر سرحدیں بانٹ لینے کا نام نہیں، آزادی کا تصّور تو انسان کے شعور و فکرکی بالیدگی سے اس کے احساسات اور خیالات کی لامحدود گہرائیوں سے مشروط ہے۔ آزادی تو فضائے بسیط کا پرندہ ہے۔ رابرٹ گرین کہتا ہے،
جیسے آنکھوں کے لیے روشنی ہے
جیسے پھیپڑوں کے لیے ہوا ہے
جیسے دل کے لیے محبت ہے
ویسے انسان کی روح کے لیے آزادی ہے
ایک اور رابرٹ یا د آگیا، رابرٹ فراسٹ۔۔۔ اس نے اپنی معنی خیز نظم مینڈنگ والز میں کتنا خوبصورت پیغام دیا ہے کہ کوئی ہے جو دیواروں کو ناپسند کرتا ہے۔ دیواریں چاہے وہ سیاسی ہوں، سماجی ہوں، فکری ہوں یا مذہبی۔ ہمیں بھی یہ دیواریں گرانی ہوں گی جو تعصب اور نفرت کے مکروہ گارے سے تیار کی جاتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنے پیاروں اپنے لوگوں کے اوپر گزرنے والے سانحات سے کچھ سیکھا ہے اور واقعی ہماری ترجیحات اپنے کتھارسس تک محدود نہیں اور دلوں میں درد مندی کا ابال وقتی نہیں تو تعصب کی یہ دیواریں گرا دیجیے۔، سب سے محبت کیجیے۔ اس سے زیادہ محبت کیجیے جس کا زبان، رنگ اور رسم و رواج آپ سے مختلف ہیں۔ آپ جس سے نظریاتی یا فکری اختلاف رکھتے ہیں، جس کا مذہب، جماعت اور فرقہ آپ سے مختلف ہے۔ خلیل جبرا ن نے دی پرافٹ میں کتنی پتے کی بات کہی ہے’ مذہب صرف پیش پا افتادہ زندگی ہے اور کچھ نہیں، اس کو نئے کپڑے نہ پہناؤ، اس کی تصویرں میں رنگ نہ بھرو اس کی فطرت کا وہی رنگ ہے جو تمھاری فطرت کا ‘۔
کوئی بھی حادثہ اپنے اندر جھانکنے اور حققیت تک رسائی حاصل کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ ہم تو یوں بھی بہت مواقع گنوا چکے ہیں! اپنے اور اپنے ارد گرد کی تطہیر کے۔۔۔ اور امجد صابری کی پرخلوص شخصیت اور خوبصورت فن کو بھی خراج ِ تحسین پیش کرنے کا یہی موثر طریقہ ہے۔ ورنہ دکھ کا یہ ایونٹ بھی ختم ہو چکا اور دہشت زدہ دلوں کا کتھارسس بھی ہو چکا۔