محبت میں بھی عبادت کا تصور لازمی لاؤ
بدن آدھی گواہی ہے شہادت روح کی لاؤ
بدن کی آیتیں پڑھ کر فراموشی گنا ہ بدتر
تمہیں ایما ن لا نا ہو تو مجھ پر دائمی لاؤ
میری مٹی کی دہری ہجرتوں کابانٹنے کو غم
نہں ملتا کوئی دریا تو کوئی دشت ہی لاؤ
ارے تم نے نہں دیکها ستارے ساتھ ٹوٹے تھے
اگر پھر دیکھنا چاہو تو آنکھوں میں نمی لاؤ
ذرا سی موج لے کر آدمی کو ڈوب جاتی ہے
سمندر میں اترنا ہے تو کشتی نوح کی لاؤ
سبھی پہلے پہل ملتے ہیں بے حد گرم جوشی سے
ہمارے سامنے اپنا رویہ آخری لاؤ
نیناعادل
(یہ غزل سہ ماہی امروز میں کے گیارھویں شمارے میں شامل ہے )
کمال شا عری لکھی ہے بہت خوب