یا جنرل راحیل شریف، چودھری نثار اور وزیرِ اعلی سندھ کے حالیہ بیانات اور اقدامات کراچی کے رستے زخموں پر مرہم رکھ سکیں گے؟ دو کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں امن و امان کے مسئلے کے علاوہ اور بھی ہزاروں مسائل اور مشکلات ہیں جو اس کے رقبے اور حجم کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ جن کی شدت میں وفا قی اور صوبائی حکومت کی عدم توجہ یا عدم دلچسپی کے باعث روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی حب کی حالت ِ زارکو بدلنے کے لیے حکومتوں کی عملی پالیساں کیا رہی ہیں؟ پورے ملک کو68 فیصد ریونیو ادا کر نے والے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی شہر میں ایک شہری کو زندگی کے کون سے بنیادی حقوق حاصل ہیں؟ دفاعی اداروں کو مستقل ٹیکس ادا کرنے والے اپنے جان و مال کے تحفّظ کے لیے کس کی طرف دیکھیں؟ کس سے مانگیں بجلی، پانی، صحت و صفائی، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولتیں؟ اس شہر ِ میں ایک طرف تو دن دھاڑے فنکاروں، استادوں، انجینئروں، قلم کاروں، سیاست دانوں کا خون اچھالا جاتا ہے تو دوسری طرف حنّان جیسے معصوم بچوں کی لاشیں سرانڈ اٹھاتے ہوئے نالوں میں پھنسی رہتی ہیں۔
وزیر ِ اعظم یہ تو کہتے ہیں کہ یہاں ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھا جائے گا کیوں کہ کراچی بے حد اہم ہے اور رینجرز کے آپریشن سے یہاں کی روشنیاں بحال ہو رہی ہیں۔ کیا واقعی اس میگا سٹی کی روشنیاں بحال ہو ئی ہیں؟ جناب وزیر اعظم ! چند دہشت گردوں کو پکڑ لینے سے جرائم ختم نہیں ہوتے۔جرائم تو بھوک، افلاس، محرومی، کم علمی اور نفرت کی پیداوار ہوتے ہیں۔ کوئی بیرونی ہاتھ آپ کو کمزور نہیں کر سکتا جب تک آپ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نا ہوں، لوگ اسی گھر میں راستے بناتے ہیں جس کی دیواریں گری ہوئی ہوں ہمارے سامنے تو مشرقی پاکستان کی عبرت ناک مثال موجود ہے۔ آپ حالات بہتر بنائیے، کراچی کے ساتھ محبّت کا سلوک کیجیے، یہاں کے لوگوں کو سہولتیں فراہم کیجیے، اور لوگوں کو ان کے بنیادی اور سیاسی حقوق دیجیے تو یہی کراچی امن و محبت کا گہوارہ بن جائے گا۔ پھر آپ کو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آپ خود سوچیے۔ پہلے بھی آپ نے آپریشن کیا تھا۔ اب بھی آپ کا یہ آپریشن جاری ہے پہلے بھی اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا اور اب بھی کیا نکلے گا کیوں کہ جرائم بھی تب ہی ختم ہوتے ہیں جب ان کے اسباب کو ختم کیا جاتا ہے اور اسباب افراد میں نہیں ان عوامل میں تلاش کیے جاتے ہے جو مجرمانہ ذہنیت کی پرورش کرتے ہیں۔ مگر اس شہر میں عام لوگ جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر کے سبب سے گھٹ رہے ہوں تو کیا؟ اس شہر کی سڑکیں کھنڈر ات میں تبدیل ہو گئیں ہوں تو کیا؟ لوگ ابلتے ہوئے گٹروں کی بو میں جینے کے عادی ہو گئے ہوں تو کیا؟ یہاں کے عوام قیامت کی گرمی اور بجلی کے بھاری بلوں کے نیچے دب کر رہ گئے ہوں تو کیا؟ اس شہر میں پانی کی قلت اور پیسہ بنانے والے ہائیڈرنٹس کی بھر مار ہے تو کیا؟ لوگ سیٹھوں کی نوکریاں کر کے شودروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو کیا؟ یہ شہر رکشوں، ریڑھوں، ڈھابوں اور گدھا گاڑیوں سے بھر گیا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی ہولناک ہے تو کیا؟ ملک کے سب سے زیادہ آباد ی والے شہر میں پولیس کی نفری قابل ِ شرم حد تک کم اور لوکل پولیس نہ ہونے کے برابر ہے تو کیا؟ میئر کو اختیارات نہیں دیے جا رہے ہوں تو کیا؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ تو کامیابی سے جاری ہے نا۔
ملک کا معاشی محور ہونے کے باوجود کراچی کے شہریوں کو ایک محدود مدّت کے سوا کبھی بھی نہ تو اپنے شہر کا انتظام خود کرنے کا اہل سمجھا گیا ہے اور نہ اس شہر کو اس کی اپنی پیدا کردہ دولت میں سے منصفانہ حصّہ دیا گیا ہے۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اس شہر کی محرومیاں اس سیاسی عمل کا ایک قابلِ افسوس نتیجہ ہیں جس کے تحت قیام پاکستان کے وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان نیم جبری اور نیم رضاکارانہ انتقا لِ آبادی ہوا۔ پاکستان سے بھارت جانے والے ہندو تو بھارت کی آبادی کے تناسب سے تعداد میں کم ہی تھے اور وہ بھارت پہنچ کر جلد ہی مختلف شہروں میں اطمینان سے بس گئے اور اس وجہ سے ایک طبقے کے طور پر ان کے لیے سیاسی اور معاشرتی مسائل پیدا نہیں ہوئے مگر بھارت سے مغربی پاکستان آنے والے افراد پاکستان کی اس وقت کی آبادی کا لگ بھگ دس فیصد تھے اور اس وجہ سے وہ ایک طبقے کے طور پر پہچانے گئے اور اس کی وجہ سے منفرد برتاؤ کا شکار بھی ہوئے ۔
ان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جو مشرقی پنجاب اور کشمیر سے آئی تھی وہ تو پنجاب کے مختلف علاقوں میں بس گئے اور زبان اور تمدّن یکساں ہونے کے سبب بڑی حد تک مقامی آبادی میں ضم ہو گئے، مگر یوپی، سی پی، حیدرآباد، ممبئی، کاٹھیاواڑ اور راجھستان جیسے علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے یا تو براہِ راست کراچی آئے یا اگرابتدائی طور پر اندرون سندھ اور پنجاب میں بسے بھی تورفتہ رفتہ کراچی کا رخ کرتے رہے۔
کراچی کی اپنی جغرافیائی اہمیّت ہے۔ کئی سو کلومیٹر لمبی ساحلی پٹّی پر یہ واحد تجارتی بندگاہ تھی جہاں تجارتی جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ دنیا کے تمام ممالک کی طر ح جہاں بیرونی تجارت ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کراچی قدرتی طور پر معاشی ترقّی کے لیے واحد انتخاب ٹھہرا۔ تمام تجارتی سرگرمیاں اور زیادہ تر صنعتی سرگرمیاں اسی شہر میں شروع ہوئیں۔ نتیجہ یہ کہ سارے مغربی پاکستان کے لوگوں کے لیے کراچی روزگار کا ایک مرکز بن گیا۔ مہاجرین نے تو اس کو اپنا ٹھکانہ بنایا ہی تھا، پنجاب اور پشتون علاقوں سے بھی لوگ دھڑادھڑ یہاں پہنچے۔ خوشگوار آب و ہوا اور پانی کی فراوانی نے اس شہر کو عام آدمی کے لیے ایک مثالی شہر بنا دیا۔اس کی آبادی جلد ہی مغربی پاکستان کی کل ٓآبادی کا دس فیصد کے قریب ہو گئی، جس کا بڑا حصّہ اردو بولنے والے مہاجرین پر مشتمل تھا۔
اس کیفیت نے ایک عجیب سیاسی صورتحال کو جنم دیا۔ کراچی بنیادی طور پر سندھ کا حصّہ تھا۔ مگر سندھ کے لوگ معاشی دوڑ سے دور تھے۔ نتیجہ یہ کہ عملی طور پر یہ باقی سندھ سے بہت مختلف ہو گیا۔ اس شہر میں سندھی بولنے اور سمجھنے والے بہت کم تھے۔ شہری اور دیہی علاقوں کے رسم ورواج، عقائد اور طرز زندگی انہیں فکر و نظر کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹتا گیا۔ دیہی علاقوں کے مقابلے میں معیشت کا مرکز ہونے کی وجہ سے کراچی کی سیاسی اہمیّت بہت بڑھ گئی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس قسم کے حالات معاشی مسابقت کو جنم دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں سیاسی مسابقت جنم لیتی ہے۔ قبائل، گروہ، فرقے اور طبقات ایک دوسرے کے مقابلے پر آتے ہیں اور ” امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنامِ وطن“۔ چنانچہ معاشی اور سیاسی مفادات کے لیے کبھی لسانی افتراقات کو بنیاد بنایا جاتا ہے اور کبھی مذہبی اور کبھی نظریاتی۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں سارے مغربی پاکستان میں قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری کی سیاست چلتی تھی مگر کراچی میں عوامی سیاست رائج تھی۔ یہ بات ملک کے فوجی اور جاگیردار حکمرانوں کو کسی طور برداشت نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کیا گیا، جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔ دوسرے مرحلے میں کراچی کی سیاست کو بندوق کے زور پر قابو کرنے کا عمل شروع کیا گیا، جسکا پہلا واضح اظہار 1965 میں ایّوب خان کی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد، اس کے بیٹے کی سرکردگی میں کراچی کے نہتّے عوام پر اندھا دھندفائرنگ کرکے بہت سے لوگوں کو موت کی نیند سلانے سے ہوا۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ اور یہ شہر مستقل طور پر فائرنگ، کرفیو، بم دھماکوں، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، ڈاکوں، سرراہ لوٹ مار، تشدّد، بھتّوں اور غنڈہ گردی کا مرکز بن گیا۔ جب سیاسی جماعتوں کو بندوق کے زور پر دبایا جاتا ہے تو کلاشنکوف کلچر جنم لیتا ہے اور خون ریزی عام ہو جاتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں اس کی معاشی اہمیّت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی کی آبادی کی اکثریت تو اردو بولنے والے مہاجرین پر مشتمل ہے جو تعداد میں بلوچوں، سندھیوں اور پشتنوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مگر ملک پر قابض اسٹبلشمنٹ ان کو ایک سیاسی اکائی تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔ اس سلسلے میں بھانت بھانت کی آوازیں سامنے آتی ہیں۔ دانشور حضرات مستقل ان کو سندھ کی تہذیب میں ضم ہونے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں مگر شعوری کو ششوں سے دو تہذ یبوں کوآپس میں ضم نہیں کیا جا سکتا، مشترکہ تہذبیں تو صدیوں کے اختلاط اور محبت سے جنم لیتی ہیں۔ مذہبی اور قدامت پسند سوچ رکھنے والوں کی جانب سے ایک عجیب و غریب رویّہ سامنے آتا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم تو پنجابی، پٹھان، سرائیکی بھی ہیں اور پاکستانی بھی، مگر کراچی کے لوگ صرف پاکستانی ہیں۔
موجودہ صورتحال میں کراچی کا انتظام سندھ حکومت کے پاس ہے، جب کہ اس کے لیے فنڈ فراہم کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔مگر اس شہر کی حالت ِ زار دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے اس شہر کی آبادی کو کچلنے کی کوششوں میں ناکامی ایک نفرت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چنانچہ ہر ہر سطح پر اس شہر کو محرومیوں کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ نہ تو اس شہر کو مناسب ترقیّاتی فنڈ دیے جاتے ہیں، نہ ہی اسے شہری حکومت دی جاتی ہے۔ اور چونکہ شہر کے حکمران لاڑکانہ، دادو، خیرپور اور نواب شاہ وغیرہ سے تعلّق رکھتے ہیں اس لیے ان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ شہر کے لوگوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے لیے بجلی، پانی، صفائی، سڑکیں اور علاج کی سہولتیں ہیں یا نہیں۔ اور ان کو ان کے بنیادی حقوق مل رہے ہیں یا نہیں۔ اس کے مقابلے میں خفیہ ہاتھ طویل آپریشن کے باوجود سرگرم ہیں اور چند روز پہلے ہی ایک معصوم شہری کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
امجد صابری کے جنازے میں شامل ہزاروں غم زدہ لوگ اپنے اپنے کندھوں پر اپنی اپنی ان گنت محرومیوں کا جنازہ لیے چل رہے تھے۔ گرمی کی شدت ان معصوم شہریوں کے دکھوں کی شدت کے آگے ماند پڑ گئی جوایک زمانے سے امن و آشتی اور محبتّوں کو خون میں نہایا دیکھتے آ رہے ہیں۔ جو اپنے بزرگوں، بھائیوں، بیٹوں، اور دوستوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کہتے نہیں تھکتیں کہ کراچی اس ملک کا معاشی گڑھ ہے ریڑھ کی ہڈی ہے اور منی پاکستان ہے۔ سو ایک طرف خود پیدا کردہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یہاں مسلسل آپریشن کیے جاتے رہے اور دوسری طرف ہیرے جیسے لوگ مٹی میں روندے جاتے رہے۔
جتنا وقت ٹاک شوز میں مرغے لڑوانے پر لگا دیا جاتا ہے اس کا اگر دس فیصد بھی اس شہر کے اصل مسائل پرغور کرنے پر لگایا جاتا تو شاید کراچی والوں میں بڑھتی ہوئی اجنبیت کچھ کم ہوتی۔ یہ اجنبیت وہی بلا ہے جو مکتی باہنی جیسی تنظمیوں کو جنم دیتی ہے، سو خدارا تعصب کی عینک اتار پھینکیں۔ کراچی کے شہریوں میں احساس ِ محرومی وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ اس ملک کے بڑے بڑے دانشوروں، سیاست دانوں، اصل حکمرانوں، اور دیگرمہربانوں قدر دانوں کے ناخن ہوں یا میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کے پنجے سب کا کام اس شہر کے زخم کریدنا ہے۔ جس کے جی میں آتا ہے یہاں کے عوام کو بھوکا، ننگا، بد تہذیب، بد اخلاق، جاہل، اور متعصّب کہہ دیتا ہے۔ کوئی بھی نوخیز بے لگام ملک کے کسی بھی گوشے سے اٹھ کر یہاں کے ووٹ بینک کی تذلیل کردیتا ہے اور اس پر داد بھی وصول کرتا ہے، اس صورت ِ حال میں تجمل پرویز صاحب کی تازہ نظم کراچی کے عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی کی عکاس ہے
بے کاری بڑھتی ہے، بڑھنے دو
غربت بڑھتی ہے، بڑھنے دو
سندھ حکومت کے اداروں میں اردو اسپیکنگ کی تعداد زیرو ہے
ہونے دو، کیا فرق پڑتا ہے
کراچی کوڑے کا ڈھیر بن گیا ہے، بننے دو
پہلے چلائیں گے پھر تھک جائیں گے پھر بھول جائیں گے
اب کیا کریں، اس سے اچھا نہیں کہ کراچی کو الگ صوبہ بنا دو
یہ ہو نہیں سکتا سندھ دھرتی کے ٹکڑے ہو نہیں سکتے
چلو جو کراچی کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں پاور دو
یہ بھی نہیں ہو سکتا، حکمرا ن ناراض ہو جائیں گے
اب کیا کریں، کوئی بتاو
ایدھی جیسے دل والوں کا یہ شہر جسے معروف انگریز ی جریدے اکانومسٹ نے دنیا کا سستا ترین شہر قرار دیا ہے، جس نے ایک دنیا کو اپنی کشادہ بانہوں میں سمیٹا ہوا ہے، جہاں رمضان شریف میں غریب روزہ داروں کے لیے لاکھوں دستر خوان بچھائے جاتے ہیں، جہاں عید الفطر پر شاپنگ کا حجم ستر ارب تک جا پہنچتا ہے، جہاں بقرعید پر جانوروں کی سب سے بڑی منڈی لگتی ہے، جو شہر دن رات اپنے پرائیوں میں رزق بانٹتا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی اور نااہلی اس عظیم شہر کو مستقل تنہا کرتی جا رہی ہے، آپریشن کی اہمیت اپنی جگہ مگر جو مسیحا مرض کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتا وہ مریض کی چیر پھاڑ کر کے اس کی تکالیف میں اضافہ تو کر سکتا ہے، علاج نہیں کر سکتا۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اردو بولنے والوں کو ملازمتیں ان کو دی گئیں مگر اس لیے نہیں کہ کوئی اقربا پروری تھی۔ اس لیے کہ ان ملازمتوں کی لیاقت انہی میں تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 1965 تک پاکستان کی حکومت نے سائنس میں بیچلر کی ڈگری رکھنے والے بھارتی مسلمانوں کو پاکستان کی شہریت دینے کی کھلی پالیسی بنا رکھی تھی۔ جو لوگ اس پالیسی کے تحت شہریت کی درخواست دیتے تھے، ان کو نہ صرف دہلی کے پاکستانی سفارتخانے میں ادب اور احترام کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ دیا جاتا تھا بلکہ چائے پانی سے بھی نوازا جاتا تھا۔ اور وہاں کوئی بھی ایسی شرط نہیں رکھی جاتی تھی کہ پاکستان کے شہری بننے کے بعد آپ سیاست میں حصّہ نہیں لیں گے، یا کراچی نہیں جائیں گے یا ووٹ صرف اسٹبلشمنٹ کے نمائندے کو دیں گے۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت کے علاوہ پاکستان کی دیگر زبانوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد آباد ہیں، یہ منی پاکستان ہے، جب حکمراں طبقے سے کراچی کا حق مانگا جاتا ہے تو بلاشبہ رنگ و نسل کی تفریق سے بالا تر ہو کر ہر شہری کے لیے مانگا جاتا ہے۔