نینا عادل کی شاعری:
نینا نے یہ کتاب مجھے کوئی دو ماہ پہلے دی تھی اور مجھے پڑھتے ہی اچھی لگی تھی۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کو دوبارہ بھی پڑھ کر دیکھنا چاہیے۔ سو دوبارہ بھی پڑھنے پر اچھی لگی۔
نینا کے ہاں دُکھ کی ایک عجیب و غریب فضا ہے جس نے اس کے لفظوں کو کبھی نیلا اور کبھی سیاہ کر رکھا ہے۔ بہت عرصے سے میں سوچتا تھا کہ عورت کا تجربہ مرد کے تجربے سے بہت مختلف ہوتا ہے اور اگر کوئی عورت مردانہ شعریات (پوئیٹکس) کے جال سے باہر آنے کی ہمت کر سکے تو بہت تگڑی شاعری کر سکتی ہے۔ نینا کو یہ طاقت اس کے عجیب احساسِ حُزن نے دی ہے۔ یہ حُزن ویسے تو آپ کو ہر (کم از پاکستانی عورتوں کی حد تک تو) عورت میں ملے گا مگر نینا کے ہاں یہ حُزن کسی گہرے تجربے کا حُزن ہے۔ ایسا شاعر جب زبان و بیاں پر بھی قادر ہو تو بے پناہ شاعری کر سکتا ہے۔ نینا کی کچھ نظموں میں حُزن اور لیاقتِ شعری کا تال میل بہت اعلا سطح پر ہوا ہے جس میں اے مرے شبد، ہزار داستاں، گیت، بزدلو، وقت کے پاس گروی رکھی آنکھ سے، زنجیروں کے درمیان، آئی وِش اور بہت سی نظمیں ہیں۔ کچھ نظمیں عورت کے خوف پر ہیں۔ میں نے خود سے متعارف متعدد عورتوں کو کسی انجانے خوف سے جوجھتے دیکھا ہے۔ نینا کی نظم “ڈر” عجیب ہول ناک نظم ہے۔
اس جسم کی دیواروں میں ہے ڈر کا خستہ گارا صاحب (اُف! کیسی ہول ناک لائن)
اور غزل جیسی لکڑ پتھر ہضم کر جانے والی صنف میں یہ شعر دیکھیے:
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مُجھ پہ ہنستی رہی بے مکانی مری
منّت کی اک ڈوری ہیں پیپل سے بندھی
جل میں بہتا ایک دیا ہیں میں اور تُو
آپ تک جانے والے سبھی راستے
داخلی ہو گئے دیکھتے دیکھتے
سب میسّر ہے لیکن نہیں
یہ میرا گھر ہے! لیکن، نہیں
(بہت ہی عجیب غزل۔ ایک مکمل تانیثی غزل)
ساعتیں عبادت کی ختم ہونے والی تھیں
بیٹھ بیٹھ جاتا تھا ہر اذاں سے دل میرا
آہ کہتی نہیں تھی مرا واقعہ
اشک کرتے نہ تھے ترجمانی مری