ناول ایک ایسی تونگر صنفِ ادب ہے جو کسی مخصوص عہد کا تاریخی، تہذیبی اور نفسیاتی پس منظر کسی خاص پیش منظر کے آئینے میں منعکس کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کا منظر نامہ بھی اک نئے زاویے سے وضع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یوں ماضی، حال اور فردا کی تثلیث بڑے کینوس پر ایک نئی سچائی سے قاری کو آشنا کرتی ہے۔ یہی ایک بڑے ناول کی خوبی بھی ہے اور کامیابی بھی۔
جدید انسان کی تنہائی پر نوحہ کناں جیمس جوائس کا یولیسس ہو یا سوسائٹی کے ریڈی میڈ عقائد اور قواعد سے اکتایا ہوا مارک ٹوئن کا ’ ہکل بیری فن، ‘ ہر ناول میں انفرادی شعور سے اجتماعی لاشعور تک پھیلے ہوئے زندگی کے بے شمار تہذیبی،تمدّنی اور معاشرتی رنگ، نظریاتی کشمکش اور نفسیاتی تہہ داریاں ہی اس صنف کا تانابانا بننے والے بنیادی اجزا اور عوامل دکھائی دیں گے۔ مگر عالمی شہرت یافتہ ناولوں میں ایک ناول ایسا بھی ہے جس کاخمیر عشق کی ستودہ مٹی سے اٹھایا گیا ہے، جس کا بیرونی دنیا سے اگر کوئی واسطہ ہے بھی تو بہت سرسری، کیوں کہ عشق اندر کا راستہ ہے، اسے باہر کی دنیا سے سروکار نہیں۔ آئیے ودرنگ ہائٹس (Wuthering Heights) پر چھائے اس تصوّر ِ عشق کی خواب ناک پرتیں کھولتے ہیں جس نے دوران ِ مطالعہ اپنے قاری کے دل کی دھڑکنوں کو مستقل زیرِ دام رکھا۔ عشق ہر رنگ پر غالب آجانے والا رنگ، ہر موسم پر چھا جانے والی رت اور ہر حقیقت کو نگل جانے والی سچائی ہے۔ فارسی اور اردو شاعری کی مشرقی روایات میں ایسا عشق جو عقیدہ بھی ہو اور نظریہ بھی،مشغلہ بھی ہو اور مسئلہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے
دور بیٹھا غبار ِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
’کہ عشق آسان نمود اوّل ولی افتاد مشکل ھا ’عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب اور ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں جیسے جذبے کی شدّت، وحشت اور حدّت اگر کسی معروف انگریزی فن پارے میں پورے جاہ وجلال کے ساتھ مجسم نظر آتی ہے تو وہ ہے ’ودرنگ ہائٹس‘۔ یہ ناول ادب عالیہ کے بہترین شاہکاروں میں شمار کیا جاتاہے، جس کی پراسرار تخلیق کار ایملی برونتے ۸۴ ۸۱ء میں اس شاہکار ناول کے شائع ہونے کے ایک سال بعد صرف تیس سال کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔
میرا ایقان ہے کہ عشق تجربہ ہے تخیّل نہیں ! سو اسے برتے بنا راست بازی سے بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عشق ایملی کو مورز (وہ میدانی زمین جو کٹی پھٹی ہونے کی وجہ سے کاشت کے قابل نہ ہو) حیران و حیران پریشان لیے پھرتا تھا۔ وہیں کہیں اس تجربے نے تخیّل کالبادہ اوڑھ کر ایک داستان رقم کی ہوگی۔ محبت کی ایک امر ہو جانے والی داستان’ ودرنگ ہائٹس‘۔ اس ہوش ربا ناول میں کیتھرین اور ہیتھ کلف کا جنون عشق کی سمجھوتا نہ کرنے والی منہ زور فطرت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ بقول سی۔ دے۔ لِوئس ’ کیتھرین اور ہیتھ کلف روح کی لابدی تنہائی کی نمائندگی کرتے ہیں، دو روحوں کے کرب کی، بلکہ ہم کو کہنا چاہیے کہ ایک ہی روح کے دو ادھورے حصّوں کی منقسم اور اکھٹّے ہونے کی جدوجہد میں مستقل مصروف ‘۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کے بارے میں فرائیڈ کہتا ہے کہ یہ محبت کا موروثی حصّہ ہے۔ وہ کہتا ہے” محبّت کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد وجود اور انا کی درمیانی حد کے تحلیل ہونے کا خدشہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ محسوسات کی تمام تر شہادتوں کے باوصف، جو فرد محبّت کا قتیل ہو جائے وہ ’من تو شدم تو من شدی ‘کا اعلان کرتا جاتا ہے، اور اس کے افعال اس بات کو حقیقت مان کر اس کے مطابق ہوجاتے ہیں”۔
گو کہ ودرنگ ہائٹس تین نسلوں پر محیط دو خاندانوں کی سرگزشت ہے مگر در حقیقت اس ناول کا ہر کردار اور ہر واقعہ، ہر پڑاؤ اور ہر دور، کیتھرین اور ہیتھ کلف کے ہجر و وصل کی جان لیوا ساعتوں کی شہادت دیتا ہے۔ناول کا آغاز ہوتا ہے تھرش کراس گرنج میں آنے والے کرائے دار لاک وڈکے تجسّس کے ساتھ۔ ودرنگ ہائٹس کی پر اسرار فضا، مکان کا اجاڑ احاطہ، پالتو کتّوں کا غول، آسیب زدہ کھڑکیاں اور لینڈلارڈ کی بدمزاج اور عجیب و غریب فطرت ( مثلا مصافحے کے لیے ہاتھ نہ بڑھانا)۔ پھر کیتھرین لنٹن کی بے قرار روح کی فریاد اور اس کی ڈائری کے بوسیدہ اوراق جو لاک وڈ کو اس گھر کی پرانی ملازمہ نیلے ڈین سے ودرنگ ہائٹس کے حالات دریافت کرنے پر اکساتے ہیں۔
کیا واقعی عشق کی سچائیاں اپنی طرف کھینچتی ہیں؟ کم از کم میرے ساتھ ایسا ہی ہے میں جب ہائی اسکول کی طالبہ تھی تو ساحر کی کتاب ’تلخیاں‘ پر امرتا پریتم کے ’ تصورات کی پرچھائیاں‘ پڑھیں اور ایک نامعلوم کشش مجھے ان دونوں کے بارے میں جاننے پر اکسانے لگی اور اس ایک کشش نے مجھے کئی کتابیں پڑھوا دیں۔میں امرتا کی کہانیوں اور نظموں اوررسیدی ٹکٹ کے ہر صفحے میں ساحر کے ادھ جلے سگریٹ کے ٹوٹوں کی بو محسوس کر سکتی تھی۔ سوچتی ہوں ! اس تلخی میں آخرایسی کیا لذّت پنہاں ہے جوجسم کی خواہشوں سے بہت ارفع اوربہت عظیم محسوس ہوتی ہے، اس رستے پر چلنے والا مسافر منزل سے یکسر بے گانہ کیوں ہوتاہے، تسخیر کے جذبے سے بے نیاز جیت کے شوق سے ناآشنا ! میرا جی نے کیا خوب کہا ہے ’ ہاں جیت میں کوئی نشہ نہیں، نشہ ہے جیت سے دوری میں، جو راہ رسیلی چلتا ہوں، اس راہ پہ چلتا جانے دے‘۔ اسی نشے کے سبب تو کر شن اور رادھاکے ملن اور مفارقت نے میراجی سے دھوپ میں پڑتی بارش جیسی نظمیں لکھوائیں۔
ایملی کے ہاں عشق بدن کی مٹی میں لتھڑی ہوئی خواہشوں سے بہت بالا فضاؤں میں روشنی بکھیرتا دکھائی دیتا ہے جہاں جسم کو روح سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا عشق میں روحوں کے بے چین اور سرگرداں رہنے کا تصور بہت قدیم ہے، ایک یونانی دیومالا میں جب ارفیاس کی پیاری بیوی یوریدیسی سانپ کے کاٹنے سے مرجاتی ہے تو وہ مدّتوں پرسوز اور درد میں ڈوبے ہوئے نغمے گاتا ہے جسے سن کر آخر ایک دیوی کا دل پسیج ہی جاتا ہے اور وہ اسے پاتال میں جا کر اپنی چہیتی بیوی کو واپس لانے کی اجازت دے دیتی۔ ہے ارفیا س پاتال کے داروغہ کو اپنے اثرانگیز گیت سنا کر سلا دیتا ہے۔ مگر پھر بھی دوسری دیویوں کی طرف سے بیوی کو ساتھ لے جانے کی شرط یہ ہوتی ہے کہ ارفیاس پاتال کی حد عبور کرنے سے پہلے کے رستے میں آگے آگے چلے اورپلٹ کر یوری دیسی کو نہ دیکھے۔ دوران سفر اسے لگا جیسے اس کی بیوی پیچھے نہیں ٓآ رہی اور دیویوں نے اس کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور اس کے دیکھتے ہی یوری دیسی غائب ہو گئی اور وہ ساری زندگی روتا رہا۔ بعد میں اسے دایونیسس دیوتا کے حکم پر قتل کر دیا گیا تاکہ پاتال میں وہ دونوں پھر مل سکیں۔ودرنگ ہائٹس بھی دو مضطرب روحوں کے جاوداں ملن کی ایسی ہی داستان ہے
وہ کہتے ہیں نا’عشق اوّل در دل معشوق پیدا می شود‘ سو ہنڈلے کی بد سلوکی ہو یا ارن شا کی کرم نوازی، ہیتھ کلف دنیا و مافیہاسے بے نیازکیتھرین کی صحبت میں مست، عشق کے عاقبت نا اندیش رستوں پر چلتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اور کیتھرین صبح سے شا م تک ودرنگ ہائٹس کے گردونواح میں بے ترتیب گھاس سے ڈھکے ہوئے اونچے نیچے راستوں پر ( جو ان کا روحانی مسکن تھا )ایک دوسرے میں مگن سرشار گھومتے رہتے۔ ایک موقع پر کیتھرین ہیتھ کلف کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے’وہ مجھ میں میرے اپنے وجود سے کہیں زیادہ ہے‘۔ ہیتھ کلف بھی کیتھرین کو بارہا اپنی روح کہتا ہے۔ یہ عشق کی کرشمہ سازی کا انوکھا رنگ ہے کہ ایک گہری رنگت والا غریب جپسی کیتھرین کی وحشی سنگت میں آسمان پر دمکتے کسی جھل مل ستارے کی طرح ٹمٹماتا دکھائی دیتاہے۔ جذب کی یہ کیفیت، جذبے کی یہ شدّت ہی اس ناول کا اصل جوہر اوراصل رنگ ہے۔ بالکل نتھانئیل ہاتھورن کے ناول اسکارلٹ لیٹر میں دکھائے جانے والے سرخ رنگ کے اُس ” اے“ کی طرح اٹل جسے ہیسٹرپرن زنا کے جرم کی پاداش میں عمر بھر زیب تن رکھتی ہے۔ جسے معاشرہ اور مذہب ذلّت کے علامتی طوق کے طور پر اس کے گلے میں ڈال دیتے ہیں، مگر جسے عشق کی صداقت اور وقت کی عدالت کردار کی عظمت اور روح کی طہارت کا پاکیزہ استعارہ بنا دیتی ہے۔
ارن شا کی وفات کے بعد ہنڈلے کو ہیتھ کلف کی تضحیک اور تذلیل کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ وہ اس پر بے دریغ تشدّد کرتا ہے مگر محرومیوں کے اس دورمیں بھی ہیتھ کلف قسمت کی بے رحمی سے بے خبر کیتھرین کی صحبت اور محبّت میں دیوانوں کی طرح سرشار رہتا ہے۔ اور اسی والہانہ رغبت کے ساتھ وہ دونوں لڑکپن کی دہلیز پار کرکے جوانی کی سیڑھیوں پر بے نیازانہ قدم رکھتے ہیں۔ ہیتھ کلف اپنی ذات کے آئینے میں گہری رنگت والے ایک لاوارث لڑکے کے بجائے اپنی محبوب کے دمکتے رنگ دیکھتا۔ اس کی کیفیت گلستان ِ سعدی میں صدیوں سے مہکتے ہوئے ان الفاظ کی سی تھی
بگفتا من گل ِ ناچیز بودم
و لیکن مدّتی باگُل نشستم
جمال ہم نشیں در من اثرکرد
وگرنہ من ھمہ خاکم کہ ھستم
کیتھرائن کی جذبہ شوق سے سرشار شخصیت نا تو ’علی پورکا ایلی‘ کی شہزاد جیسی حشر اٹھاتی فتنہ انگیز محبوبہ جیسی ہے اور نا ہی ’ ٹو دا لائٹ ہاؤس ‘ کی ہیروئن جیسی سحر انگیز قوتوں کی مالک ذہین و فطین مسسز رمزی جیسی ہے۔ اس کی ذات کا اوّل و آخر حوالہ عشق ہے کیونکہ کیتھرین کو نہ ہی ٹالسٹائے کی انا کر ینینا کی طرح اس کا حسن و جمال انفرادیت بخشتا ہے نہ اس کے نازوادا آسمان سے باتیں کرتے ہیں اور نہ اسے دولت کا جاہ و جلال اور علم و تدبّر کے جواہر ممتاز بناتے ہیں۔وہ تو ایک الّھڑ نادان ہرنی ہے، دشت ِ محبّت میں بے تکان قلانچیں بھرتی ہوئی نازک سی ناعاقبت اندیش غزال، جسے وقت کا قیس دشت کی تہذیب سے آشنا کر کے وحشت کاایسا درس دیتا ہے جسے کسی صورت سہارا ہی نہ جا سکے۔ سو قسمت اسے اور ہیتھ کلف کو ودرنگ ہائٹس سے ذرا دوری پر واقع ایک دولت کدے تھرش کراس گرنج لے آتی ہے جہاں ان کا ہم عمر ایڈگر لنٹن ان کی زندگی میں داخل ہو تاہے، جس کا رکھ رکھاؤ اوردولت جلد ہی ایک جپسی کی بے پایاں اور بے بصر محبت پر غالب آنے لگتے ہیں۔ گوکہ کیتھرین جانتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے نظر یں چرا رہی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ اس فریب کا خمیازہ اسے اپنی جان دے کر چکانا پڑے گا۔ وہ ایڈگرکے لیے محسوس ہونے والی کشش کے سطحی پن سے اتنا ہی واقف ہوتی ہے جتنا کہ اپنے دل میں پنہاں ہیتھ کلف کی شدید محبّت سے۔ وہ بیک وقت پر آسائش زندگی کی خواہش کرنے والی عورت کے روایتی احساسات سے، اور عشق کی شدّت سے آگاہ ایک باغی عورت کے جذبے کی بے پناہ قوت سے لڑ رہی ہوتی ہے۔ اور پھر مادی خواہشات خوابوں کا نرم و نازک چہرہ اپنے نوکیلے پنجوں سے نوچ ڈالتی ہیں۔ کیتھرین نیلے ڈین سے کہتی ہے ’ اگر میں اور ہیتھ کلف شادی کرلیں تو ہم فقیررہ جائیں گے، جب کہ میں اگر لنٹن سے شادی کرتی ہوںتو میںہیتھ کلف کی، اسے اس کے موجودہ مقام سے بلند کر کے، اپنے بھائی کی دسترس سے نکلنے میں مدد کر سکتی ہوں۔ ‘ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتی کہ مکتب عشق کا نرالا دستور اسے کبھی چھٹّی نہیں لینے دے گا۔ وہ اپنے مدار سے ہٹنے کا ارادہ کرکے، یعنی ایڈگر لنٹن سے شادی کرکے، زندگی کی ایک ایسی ناقابل ِ تلافی غلطی کر بیٹھتی ہے جس کے لیے عشق کی عدالت میں معافی اور نرمی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
بقول غلام محمد قاصر ’کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘۔ یہ سطور لکھتے وقت مجھے اپنے پیر کالونی والے گھر کے پڑوس میں رہنے والا ایک جوڑا یاد آگیا۔ عثمان صاحب معمولی شکل و صورت والے ایک عام سے آدمی تھے۔ انہیں ایک متوسّط گھرانے کی عام سی لڑکی سے محبّت ہو گئی اور وہ مہوش کو دلہن بنا کر گھر لے آئے۔ ان دونوں میں بلا کی محبّت تھی مگر شادی کے چند سالوں بعد ہی ان کی بیگم کے سر میں درد کے شدید جھٹکے اٹھنے لگے۔ بہت دوا دارو کی گئی مگر آرام نہ آتا تھا۔ کبھی جب مہوش کو دورہ پڑتا تو ان کی چیخیں سن کر اڑوس پڑوس کی خواتین اکٹھی ہو جاتیں۔ کوئی کہتا جادو ٹونا ہے، کوئی کہتا بھوت پریت کا سایہ ہے، کوئی جن اتارنے والے عاملوں کا پتہ بتاتا تو کوئی حسد کے حملوں سے بچنے کے ٹونے ٹوٹکے۔ عثمان صاحب کے گھر سے ہم کبھی کسی ڈاکٹر کو اورکبھی کسی پیر فقیر کو نکلتا دیکھتے رہتے تھے۔ آہستہ آہستہ تیمارداری اور ہمدردی کرنے والوں نے ان کے گھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ مگر عثمان صاحب کو تو جیسے اپنی بیمار بیوی کی خدمت کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں تھا۔ ساری دنیا سے کنارہ کش وہ بیوی کی خدمت گزاری میں لگے رہتے۔ بیوی کی خدمت کے علاوہ ان کی اگر کوئی مصروفیت تھی تو وہ تھی ان کی کلرکی۔ اور یہ نوکری بھی تو بیوی کی خدمت کے لیے ہی تھی۔ ہمارا بچپن بیتا۔ ہوشیاری آگئی۔ ماہ سال کی اس گردش نے عثمان صاحب کو بالکل نچوڑ کر رکھ دیا اور وہ اپنی بیگم سے بھی زیادہ بیمار دکھائی دینے لگے۔ ان کی طبیعت بجھ گئی، خوشیاں بے نام دکھوں میں بدل گئیں، مگر انہوں نے محبت کے غم کو سینے سے لگائے رکھا۔ ایسا لگتا تھا وہ صرف اور صرف مہوش بیگم کے لیے بنے ہیں۔ ان کی آنکھیں صرف تب ہی چمکتی دیکھیں جب وہ اپنی بے حال بیگم کا سر داب رہے ہوتے۔ جانے ان سے دھمیی دھیمی آواز میں وہ کیا راز و نیاز کی باتیں کرتے تھے، مگر باقی کسی سے اب وہ کم ہی بولتے۔ شاید صرف ضرورت کے وقت۔ ان کی حالت قابل ِ رحم تھی مگر جس وقت وہ اپنی محبوب بیوی سے ہمکلام ہوتے اس وقت محبّت کی صداقت احساس ِ تفاخر بن جاتی اور تمام تربیچارگی کے باوجود ان کی سچائی اور لگن پرہم رشک کیے بنا نہیں رہ سکتے تھے۔
ہیتھ کلف کی زندگی کو بھی ہم، اگر اسے کیھترین سے الگ کر دیا جائے، کوئی معنی نہیں دے سکتے۔ دراصل وہ زندگی بھر اور کوئی کام کر ہی نہیں پاتا۔ جب تک کیتھرین کی ہم نشینی میسر ہوتی ہے تو اس کے لیے دنیا کے سارے ستم بے معنی ہوتے ہیں اور جب وہ غیر ہو جاتی ہے تو وہ دنیاکی آسائشیں کماکر بھی ان دیکھی اذیّتیں جھیلتا رہتا ہے۔ اسے بس اپنے ستارے اپنے سیّارے کی طرف لوٹنے کی دھن ہوتی ہے۔ بے بسی، ناکامی، مفارقت، جدائی اور تشنگی رفتہ رفتہ برہمی، کرختی، انتقام، تشدّد اور نفرت میں بدلنے لگتے ہیں۔ نفرت اور محبّت تو ایک سکّے کے دو رخ ہیں۔ دونوں ہی وابستگی اور شدت کے انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں اور دونوں ہی آدمی کو اندر سے خالی کر دیتے ہیں۔ کیتھرین ایک مقام پر کہتی ہے ’ میں ہیتھ کلف ہوں، وہ ہر وقت میرے ذہن میں رہتاہے میری ذات بن کر‘۔ اور ہیتھ کلف اس کے الفاظ کو معنی پہناتاہے سو وہ پھر ملتے ہیں۔ کیونکہ اصل میں وہ ایک دوسرے سے کبھی جدا ہوئے ہی نہیں ہوتے ! عشق کا مذہب انہیں خوف اور موت کے خلاف، سوسائٹی اور اس کے آدرشوں کے خلاف ایک نادیدہ ڈھال عطا کرتاہے۔ ہیتھ کلف نہ صرف ہنڈلے سے جسے اسکی بیوی فرانسس کی موت کے بعد کثرت ِ شراب نوشی موت کے منہ میں یوں بھی دھکیل رہی ہوتی ہے، ودرنگ ہائٹس کی ملکیت حاصل کرلیتا ہے اور اس سے انتقاماً گزشتہ بد سلوکیوں کا پورا حساب لیتاہے، بلکہ وہ کیتھرین کی قریب رہنے اور اس سے انتقام لینے کے لیے اس کی نند ازابیلا سے شادی کر لیتاہے جس سے اس کا ایک بیٹالنٹن پیدا ہوتاہے۔ مگرازدواجی زندگی سے لذت کشید کرنا اس کے لیے ناممکن تھا کیونکہ اس کے روح وبدن پر ثبت کیتھرین کے دستخط کسی صورت مٹائے نہیں جاسکتے تھے۔ سو ہیتھ کلف سوائے دوسروں کو اور خود کو اذیّت دینے کے کسی اور طرح خود کوتسلی نہیں دے پاتا تھا۔محبّت کی ناکامی نفرت کی شدّت اختیار کرکے عجب غیض و غضب میں بدل جاتی ہے۔ اتنی شدّت کہ قاری کو بھی جھرجھری آجائے۔ عشق میں اپنی ذات کے فنا ہوجانے کا ادراک کرنے میں ایک ذرا سی دیر کردینے والی کیتھرین، اپنے وجدان کی گہرائیوں، روح کی پہنائیوں اور آئینہ خانے کی جلوہ آرائیوں میںبلا شرکت ِ غیرے صرف اور صرف ہیتھ کلف کاعکس دیکھتی ہے۔ اور اس اسیری سے اسے رہائی دلانا نہ خدا کے بس میں ہوتا ہے اور نہ شیطان کے۔ وہ جاں کنی کے عالم میں ایک بیٹی کو جنم دے کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے، اور ہیتھ کلف کی تلخی پاگل پن کی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس حد تک کہ کیھترین کی قبر کی مٹی تک کو شرک سے پاک کرنے کے جنون میں مبتلا ہیتھ کلف سالہاسال مورز میں کیتھرین کی روح سے ہم آمیز ہونے کے لیے بے تاب رہتاہے۔ عشق کی وحشت سے ٹوٹاہوا بد مزاج ہیتھ کلف کیتھرین کی بیٹی کیتھی کو بھی اسکی بلوغت کے بعد اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کرتاہے اور اسے اپنے بیٹے کی زندگی میں لاکر اپنے ماضی کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتاہے۔ مگرکوئی انتقام، کوئی اذیّت، کوئی فریب دنیا کی کوئی شے اسے ہجر کے ادھورے پن سے نہیں نکال سکتے تھے۔ اس کے نا آسودہ عشق کی تکمیل صرف ایک ہی صورت میں ممکن تھی، سو سالہاسال اپنے جسم کی دیواروں سے سر ٹکرانے کے بعد وہ بھی بدن کے بوجھ سے آزاد ہو کر مورز کی بے کل ہواؤں میں ضم ہو کر کیھترین کی روح میں جذب ہو جاتاہے اور ودرنگ ہائٹس کے بد شگون کواڑوں پرکیتھی اور ہنڈلے کے بیٹے ہیرٹن ارن شا کے ملن کے ساتھ خوش بختی دستک دیتی ہے۔
یہ ایک خوابیدہ سی سچائی ہے کہ میں نے ایملی برونٹے کے ساتھ خود کو ودرنگ ہائٹس کے اطراف اگی ہوئی بے ترتیب گھاس میں ہوا کی طرح تیرتے پایا ہے۔ اس کے ساتھ چکھاہے خوفناک مسّرت اورلذّت آمیز دکھوں کا ذائقہ۔ میں نے اس کے لیے اک نظم لکھی تھی؛
ہوا ہو ایملی تم اور
ہواؤں کو تو ساری داستاں معلوم ہوتی ہے
وہ مٹی خاص ہوتی ہے کہ جس پہ عشق کی بارش برستی
جذب ہوتی ہے
جہاں بے داغ سبزہ پھوٹتا ہے نرم،
پاکیزہ
جہاں پرآرزو کی باوضو کلیاں چٹکتی ہیں
ہوا تو چھو کے خوشبو کا بدن محسوس کرتی ہے
ہوا کا لمس تو گم گشتہ جوہر ڈھونڈ لیتا ہے
مقدّس عشق کی مٹی ! ستودہ اور
خوابیدہ
کسی کا رنگ جب اپنی تہوں میں گھول لیتی ہے
چھڑایا جا نہیں سکتا، مٹایا جا نہیں جا سکتا
ہوا ہو، جانتی ہو تم یہ ساری رنگ آمیزی
یہ مٹی اک دفعہ منسوب ہو جائے کسی سے گر
تو بیچی جا نہیں سکتی، خریدی جا نہیں سکتی
حضورِ عشق میں رکھ کر قدم،دل سیکھ لیتا ہے
سرِ تسلیم خم کرنا
یہاں اک پل کی غفلت، اک ذرا سی جنبشِ ابرو
زمینوں آسمانوں میں دراڑیں ڈال دیتی ہے
غرض کا بیج اس مٹی میں بویا جا نہیں سکتا
ہوا ہو، جانتی ہومیری فطرت
بھید میرے تم