چپ کا راج
جنگل ما آواج کے ٹھہرو ہر سو چپ کا راج
ٹہنڑی پھول نویں نا لاوے ، پیڑ نہ دیوے باج
جیبھ داب کے سو گئیو پٹــــّن، کے گاوے کوئی راگ؟
کنڈلی مار کے پھنکارے ہے ڈال ڈال پر ناگ
ہر سکتی کو پوج پوج کر من ماں گھٹ گیو سانس
دھوپ کی تیجی جھیل جھیل کے پڑ گیو پیلی گھانس
سوکھی بوٹی ، بیر بھی پھیکو مرجھائیو ہریالی
کھر بوجے رس کیا ٹپکاویں مار گیو بھنڈ سالی
چار اور کے سورج بنسی اتریو سوکھو گھاٹ
ساگ سواد نہ دیوے سنگی ، پنجر ہو گیو جاٹ
گونگو بہرو بستی تلپٹ سنے نہ من کی چاپ
ناگ کے آگے رگڑیو متھّا، ڈھیر کمایو پاپ
آپنڑے ڈر کی بلی چڑھ گیو، آپ ہی لگ گیو گھات
سوکھ گیو مونھ کوئی نہ نکلیو جھوٹی سچّی بات
راس کسی کو کب آوے ہےسبدوں کا اپمان؟
لکڑ پھتر ہو گیو سارو سوچوں کے کھلیان
سوچوں کے کھلیان گیو تو پھر کے آیو ہاتھ؟
اوپر والے تک نہ پہنچیو چیر کے چھاتی بات
جنگل ماں آواج کے ٹھہرو ہر سو چپ کا راج
اس بستی کی سنوائی نہ کل ہونڑی نہ آج
(یہ نظم سہ ماہی امروز علی گڑھ میں شائع کے دسویں شمارے میں شامل ہے)