نینا عادل، نظم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شام ڈھلے جن آ جاتے ہیں ایک کنواری لڑکی پر
پھر تنگ نائے میں دیر تلک لوبان کی خوشبو اٹھتی ہے
درگاہوں کی قبروں سے اٹھتا ہے اگر بتّی کا دھواں
سلگے ہوئے سگریٹ بجھتے ہیں جلتے ہوئے ذہنوں کے اندر
چشمہ رکھا ہے سستا سا کچھ جنسی کتابوں کے اوپر
نالی کے گندے پانی پر منڈلاتے رہتے ہیں مچھر
اور چونٹیاں چنگیری کی باسی روٹی پر اک لائن میں
طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھائے سیدھ میں چلتی جاتی ہیں
ساڑھی کے میلے پلّو سے ناداری کی بو اٹھتی ہے
آنکھوں کے گدلے گنگا میں اک آس کا دیپک جلتا ہے
اور خوف کی بے رنگ چابی سے معبد کا تالا کھلتا ہے
نطشے کا مغرب جانتا ہے
[دھن کن فقراء میں بٹتا ہے]
مشرق کا خدا کیوں زندہ ہے
نینا عادل