موت کی کتاب” بہت خاموشی سے باطن میں جھانکنے والا ناول ، جوقاری کے اندر سوئے ہوئے اضطراب کو بڑی آہستگی سے جگاتا ہے۔ پڑھنے والے کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کیسے وہ لاشعوری طورپر اپنی ذات کے ان تاریک گوشوں کو ٹٹولنے لگا ہے جن پر عموما شعور کا موٹا پردہ پڑا رہتا ہے ۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کب دوران ِ مطالعہ خودکشی کا دھندلا سایہ اوراق سے نکل کسی دیرینہ دوست کی طرح سامنے آ کھڑا ہوا۔ ایسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے وہ ہمیشہ سے یہیں کہیں بہت قریب رہا ہو ۔ زندگی کی متلاہٹ کو ایک کڑوے گھونٹ میں بدل کر سلا دینے کے لیے
ناول کے مرکزی کردار ٓکی بڑبڑاہٹ، جنونی کیفیت، قنوطیت، وحشت، جنسیت اور پاگل پن گدلے پانی کے اس جوہڑ کی طرح دکھائی دیتے ہیں جس میں جھانکنے والے کو اپنا دھندلا عکس واضح طور پر ہانپتا کانپتا نظر آئے اور یہی وہ ربط ہے جو قاری اور کہانی کے بیچ میں قائم ہو کر رہتا ہے ۔ اس کراہیت ، تنفر ، جبر، دباؤ، مجبوری اور بیزاری کے باعث جو حنس زندگی کم و بیش ہر ذی روح پر مسلط کرتی ہے، وہ حبس جب حساس یا کمزور دلوں میں بہت بڑھ جاتا ہے تو خودکشی جیسی ”ہمدرد” ہستی جیب یا جوتے کہیں سے بھی برآمد ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ موت تو یوں بھی وہ دستک ہے جو جیتے جی باربار سنائی نہ دے تو آدمی کہتاہے “نہ ہومرنا تو جینے کا مزہ کیا”۔
پاگل پن ایک طرح کی ڈھال بھی ہے۔ صبر کرنے ، جبر سہنے ، خاموش رہنے یا بعض اوقات چیخنے اور شور کرنے کا جواز فراہم کرنے والی ڈھال ۔ اس ناول میں بھی پاگل پن ایک ڈھال ہے ، پیدائش سے پہلے لگنے والی ٹھوکروں کے خلاف ایک کمزور سے بچے کو تحفظ فراہم کرنے والی مضبوط ڈھال جسے باپ بجلی کے تاروں سے باندھ کر لوگوں کے سامنے پیٹتا ہے جسے وہ اپنی بیوی کے یار کا نطفہ اور حرام ذادہ کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو ایسا بچہ دیوانگی کے خنجر سے ہوش مندی کا دامن چاک کیوں نہ کردے- شیکسپئر کے ہملٹ کا شہرہ آفاق جملہ there is method in my madness بھی تو ہوش مندی کی تنگ دامانی کا گلہ کرتا ہے۔۔۔۔
خود کشی یا قتل کرنے کی خواہش ، لٹ جانے یا لوٹ لینے کی تمنا۔۔۔۔۔ آزادی یا گرفتاری کی آرزو ۔۔۔ ہر جذبہ انسانی ذہن میں کبھی نا کبھی کم یازیادہ سر اٹھاتا ہی ہے- اس جذبے کو روک رکھنے کے لیے انسان کبھی خود سے اور کبھی معاشرے سے لڑتا ہے مگر جب لڑنے کی ہمت ہواور ہارنے کا حوصلہ نہ ہوتو زندگی کی کتاب بھی موت کی کتاب جسی لرزہ خیز دکھائی دیتی ہے –
خالد جاوید کا یہ ناول بھی کہیں عجلت میں اورکہیں آہستگی سے ایک کمزور ، ہارے ہوئے پاگل شخص کی زندگی کے اوراق الٹتا پلٹتا ہے، جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے کسی کی ذات پر مسلط کرب کی شدت زندگی کے ہر صفحے پر موت کی سیاہی مل رہی ہے-
نیناعادل