میں اعتراف کرتا ہوں کہ پہلے پہل جب نینا عادل کی شاعری پڑھی تو دھیان شاعرات کی اس سجی سجائی منڈی کی طرف چلا گیا ۔ جہاں عموماً خوبصورت اور خصوصاً متموّل خواتین کا ایک اژدھام طبعاً مخیر، اکثرمعتبراور بیشتردل پھینک قسم کے شعرا کی مدد سے اردو ادب کے روشن اُفق پر، اپنے تئیں، (وقتی) جھلملاہٹ کیلئے کوشاں و مصروف نظر آتی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں ادب سے متعلق دس کتابیں بھی نہیں پڑھی ہوتیں ان کے پانچ سات مجموعے منظرِ عام پر آکر ہم جیسے تہی دامنوں کا منہہ چڑاتے ہیں ۔
یہ امر ان چند ایک خواتین شاعرات کیلئے بہت دل شکن ہوتا ہے جو اپنی ذاتی محنت ، اُپج اورجینئوین تخلیقی جذبوں کے ساتھ آگے بڑھنا اورادب کے اُفق پر اپنا ایک جائز نام ومقام بنانا چاہتی ہیں ۔
دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے اور اب جو پلٹ کے دیکھا تو ایک سوال ذہن میں اُبھرا کہ نینا عادل جیسا تِیکھا لہجہ تو کسی مخیرشاعر تک کو نصیب نہیں ۔ تجسّس بڑھ گیا ۔ پھر انہیں اورپڑھا اورکچھ مزید جانکاری ان کے بارے میں حاصل کی ۔ پتہ چلا کہ ہمارے ہی شہرِ پُر آشوب سے تعلق ہے ۔ راوی کا کہنا ہے کہ ہمارے شہر کے شعرا وطنِ عزیزکے ادبی منظرنامے میں کما حقہم جگہ نہیں بنا پاتے چہ جائیکہ مسئلہ ایک خاتون کا ہو اور وہ بھی ایک حسین خاتون !
یقین مانئے نکتہٗ نظر ہی نہیں زاویہٗ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔
نینا کراچی یونیورسٹی سے وابستہ رہیں ۔ اردو اور انگریزی ادب میں ممتاز پوزیشن سے ماسٹرز کیا ۔ اردو، انگریزی اور مغربی ادب پر گہری نظر رکھتی ہیں ۔ وسیع المطالعہ بھی بہت ہیں ۔ (لیجئیے اس صفت کے ساتھ تو ہما شما کا کیا ذکر، کئی ایک بڑے بڑے ادیب و شاعر بھی فہرست سے خارج ہوگئے ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر نینا عادل کچھ نہ بھی لکھتیں اور صرف مغربی ادب ہی کا ترجمہ گاہے بہ گاہے پیش کرتی رہتیں تب بھی اپنا ایک الگ مقام بنا لیتیں۔
نینا کی شاعری سے متعلق ایک اور اہم امر یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ اچھوتے مضامین رقم کئے ۔ وہ ایک حساس اور محبت کرنے والی لڑکی ہے ۔ اپنے ارد گرد پھیلے دکھ دیکھ کر زخمی بھی ہوجاتی ہے اور پھر اس کا محبت بھرا دل امید کی کوئی نہ کوئی کرن بھی ڈھونڈ لاتا ہے۔ جب دکھ ہمہ گیر ہو اورتنگنائےغزل یا نظامِ نظم میں قید نا ہوپائے تو وہ بلاگز لکھتی ہے اور بلا کم و کاست لکھتی ہے، وہ اپنی جرآتمندی میں یہ پروا بھی نہیں کرتی کہ کہیں اربابِ سخن یا صاحبان عزّ وحشم کی جبینوں پر بل نہ پڑجائیں ۔
اس کی نظموں کے اچھوتے اور تیکھے عناوین و مضامین بھی سو فیصد اس کے اپنے ہیں ۔
تکمیل، سماں باندھو، وقت کے پاس گروی رکھی آنکھ سے ۔۔۔۔ ، آپ بیتی، کھیل جاری ہے، اے میرے شبد ، جوالا مکھی ، دھروٹ ، میں تیری نظم نہیں ہوں ، پلومیریا ، اپریل بہار کا استقبال کرتاہے اور تُو رقص کر جیسی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
یہاں میں ایک نظم شئر کرنا چاہوں گا:
جوادبیات کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی نینا عادل کی ایک تازہ نظم ہے ۔
اس کی دیگر نظموں کی طرح یہ نظم بھی ایک سے زیادہ بار قرآت کی متقاضی ہے ۔ پھر آپ اسے دوبار ، سہ بار اور بار بار پڑھتے چلے جاتے ہیں اور نینا کا پھیلایا ہوا دکھ کا بے کنارساگر آپ کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔
دیکھئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک بار اس نے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیا جو ہمارے ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے ۔
ً چاردیواری میں چنی ہوئی عورت ً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند کے اُس طرف خود اُگی جھاڑیوں میں لگی رس بھری بیریاں خوب تیار ہیں
پر مرے واسطے ان کو دامن میں بھر لینا ممکن نہیں
اے خدا! جگنووں ، قمقوں اور ستاروں کی پاکیزہ تابندگی
وہ جگہ ، سو رہی ہے جہاں پر چناروں کے اونچے درختوں سے
نتھری ہوئی جاں فزا چاندنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوشبوئیں خیمہ زن ہیں جہاں رات دن
میری ان سرحدوں تک رسائی نہیں
اور پچھم کی چنچل سریلی ہوا میرے آنگن سے ہو کر گزرتی نہیں
میں کہ بارش کے قطروں سے نتھرے ہوئے سبز پتوں کے بوسوں سے محروم ہوں
ان کواڑوں کی پرلی طرف دیر سے بند پھاٹک پر ٹھہرے ہوئے اجنبی
آس اور بے کلی حرف اور ان کہی کچھ نہیں!
میں نے کچھ بھی تو دیکھا نہیں
میرے کمرے کی سیلن ، گھٹن اور خستہ دواروں کے پیارے خدا
اور کچھ نا سہی تو مجھے اک گنہ کی اجازت ملے !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی باقی ماندہ نظمیں بھی ایسی ہی گہرائی اور گِیرائی لئے ہوتی ہیں ۔ وہ اپنے ارد گرد پھیلے دکھوں سے ایک کا چناؤ کرتی ہے اور ایک مصور کے بے رحم برش کی طرح اس کا قلم منظر بناتا چلا جاتا ہے ۔ اکثر یہ منظر دلخراش ہوتا ہے اور اس کا دکھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔
عام روش پہ رواں دواں اور مکھی پہ مکھی مارنے والے ہزارہا نظم نگاروں میں وہ اپنا ایک منفرد اور اعلیٰ مقام بناتی چلی جارہی ہے ۔
وہ کم کم لکھتی ہے لیکن جب بھی قلم اٹھاتی ہے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیتی ہے جو سب کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اوجھل ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں نے عصرِ حاضر کی شاعرات میں بہت کم ایسی بامقصد شاعری کرنے والی کوئی خاتون شاعرہ دیکھی ہے ۔
نظم پر اس کی گہری چھاپ نے بھی اس کو ایک نقصان پہنچایا اور وہ یہ کہ عام قاری اس کی غزل کی پہنائی و گِیرائی سے ناواقف سا رہا ۔
نینا عادل کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناگہاں دو جہاں زیرِ پا آگئے
کیسے کانٹے یہ نیناؔ نکالوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کے پار کس خموشی سے
ایک دریا اتارتے ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب سے روشنی کا سرا لوں گی میں
اور اندھیرے میں رستہ بنا لوں گی میں
آزماتا ہے مجھکو خدا، ۔۔۔۔۔ باخدا
ہاتھ جیسے دعا سے اٹھا لوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھلنے سے پہلے مرے خواب کو
توڑ ڈالے نا غفلت ذرا سی تری
یہ ادب، یہ محبت، یہ وارفتگی
اور شہزادیوں جیسی داسی تری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غبارِ ذات بیٹھے گا کوئی دن
گری ہے آخری دیوار تجھ میں
……….
ذرا سی موج لے کر آدمی کوڈوب جاتی ہےْ
سمند ر میں اترنا ہو تو کشتی نوح کی لاو
سبھی پہلے پہل ملتے ہیں بے حد گرم جوشی سے
ہمارے سامنے اپنا رویہ آخری لاو
………….
برباد ہوتے جائیں گے جتنا کرو گےتم
ہم کو تمھارا ہاتھ بٹانے کا شوق ہے
اظہار ، آس شوق ، تماشہ ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
…………….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنتی رہی بے مکانی مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار بار گوار ہے پارسائی کو
جو میری ذات پر بہتان تیرے جیسا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہماری یہ شاعرہ کیسے عام طور سے مستعمل قوافی اورردیفوں سے بچتے ہوئے اور پائمال مضامین سے بالکل الگ اپنی ایک الگ راہ نکالے چلی جاتی ہے ۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن اس کی اپنی محنت، اس کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور بہتر سے بہترکی جستجو اس کے کلام میں نکھار پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
جس طرح دیکھنے والی آنکھیں درویش کے اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اس ایک لمحہ کی منتظر ہوتی ہیں جب اس سے جانے یا انجانے میں کوئی کرامت سرزد ہوجائے ۔ بالکل اسی طرح نینا کے محبت بھرے دل پر نظریں جمائے اس کے چاہنے والے محبت کی کرامت کے منتظر رہتے ہیں جو اسکی شاعری کی صورت نمو پذیر ہوتی ہے ۔
ںینا عادل ۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے !
جیتی رہو اور لکھتی رہو۔۔۔۔۔۔۔
خدائے حرف و سخن تم پہ راہِ سخن اورآسان فرمائے، مزید ترقیاں اور قبولیتِ کلام نصیب ہو ۔
مجید اختر
۹ جولائی ۲۰۱۷ ع
انسیناڈا ۔ باھا کیلی فورنی
میں اعتراف کرتا ہوں کہ پہلے پہل جب نینا عادل کی شاعری پڑھی تو دھیان شاعرات کی اس سجی سجائی منڈی کی طرف چلا گیا ۔ جہاں عموماً خوبصورت اور خصوصاً متموّل خواتین کا ایک اژدھام طبعاً مخیر، اکثرمعتبراور بیشتردل پھینک قسم کے شعرا کی مدد سے اردو ادب کے روشن اُفق پر، اپنے تئیں، (وقتی) جھلملاہٹ کیلئے کوشاں و مصروف نظر آتی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں ادب سے متعلق دس کتابیں بھی نہیں پڑھی ہوتیں ان کے پانچ سات مجموعے منظرِ عام پر آکر ہم جیسے تہی دامنوں کا منہہ چڑاتے ہیں ۔
یہ امر ان چند ایک خواتین شاعرات کیلئے بہت دل شکن ہوتا ہے جو اپنی ذاتی محنت ، اُپج اورجینئوین تخلیقی جذبوں کے ساتھ آگے بڑھنا اورادب کے اُفق پر اپنا ایک جائز نام ومقام بنانا چاہتی ہیں ۔
دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے اور اب جو پلٹ کے دیکھا تو ایک سوال ذہن میں اُبھرا کہ نینا عادل جیسا تِیکھا لہجہ تو کسی مخیرشاعر تک کو نصیب نہیں ۔ تجسّس بڑھ گیا ۔ پھر انہیں اورپڑھا اورکچھ مزید جانکاری ان کے بارے میں حاصل کی ۔ پتہ چلا کہ ہمارے ہی شہرِ پُر آشوب سے تعلق ہے ۔ راوی کا کہنا ہے کہ ہمارے شہر کے شعرا وطنِ عزیزکے ادبی منظرنامے میں کما حقہم جگہ نہیں بنا پاتے چہ جائیکہ مسئلہ ایک خاتون کا ہو اور وہ بھی ایک حسین خاتون !
یقین مانئے نکتہٗ نظر ہی نہیں زاویہٗ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔
نینا کراچی یونیورسٹی سے وابستہ رہیں ۔ اردو اور انگریزی ادب میں ممتاز پوزیشن سے ماسٹرز کیا ۔ اردو، انگریزی اور مغربی ادب پر گہری نظر رکھتی ہیں ۔ وسیع المطالعہ بھی بہت ہیں ۔ (لیجئیے اس صفت کے ساتھ تو ہما شما کا کیا ذکر، کئی ایک بڑے بڑے ادیب و شاعر بھی فہرست سے خارج ہوگئے ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر نینا عادل کچھ نہ بھی لکھتیں اور صرف مغربی ادب ہی کا ترجمہ گاہے بہ گاہے پیش کرتی رہتیں تب بھی اپنا ایک الگ مقام بنا لیتیں۔
نینا کی شاعری سے متعلق ایک اور اہم امر یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ اچھوتے مضامین رقم کئے ۔ وہ ایک حساس اور محبت کرنے والی لڑکی ہے ۔ اپنے ارد گرد پھیلے دکھ دیکھ کر زخمی بھی ہوجاتی ہے اور پھر اس کا محبت بھرا دل امید کی کوئی نہ کوئی کرن بھی ڈھونڈ لاتا ہے۔ جب دکھ ہمہ گیر ہو اورتنگنائےغزل یا نظامِ نظم میں قید نا ہوپائے تو وہ بلاگز لکھتی ہے اور بلا کم و کاست لکھتی ہے، وہ اپنی جرآتمندی میں یہ پروا بھی نہیں کرتی کہ کہیں اربابِ سخن یا صاحبان عزّ وحشم کی جبینوں پر بل نہ پڑجائیں ۔
اس کی نظموں کے اچھوتے اور تیکھے عناوین و مضامین بھی سو فیصد اس کے اپنے ہیں ۔
تکمیل، سماں باندھو، وقت کے پاس گروی رکھی آنکھ سے ۔۔۔۔ ، آپ بیتی، کھیل جاری ہے، اے میرے شبد ، جوالا مکھی ، دھروٹ ، میں تیری نظم نہیں ہوں ، پلومیریا ، اپریل بہار کا استقبال کرتاہے اور تُو رقص کر جیسی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
یہاں میں ایک نظم شئر کرنا چاہوں گا:
جوادبیات کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی نینا عادل کی ایک تازہ نظم ہے ۔
اس کی دیگر نظموں کی طرح یہ نظم بھی ایک سے زیادہ بار قرآت کی متقاضی ہے ۔ پھر آپ اسے دوبار ، سہ بار اور بار بار پڑھتے چلے جاتے ہیں اور نینا کا پھیلایا ہوا دکھ کا بے کنارساگر آپ کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔
دیکھئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک بار اس نے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیا جو ہمارے ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے ۔
ً چاردیواری میں چنی ہوئی عورت ً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند کے اُس طرف خود اُگی جھاڑیوں میں لگی رس بھری بیریاں خوب تیار ہیں
پر مرے واسطے ان کو دامن میں بھر لینا ممکن نہیں
اے خدا! جگنووں ، قمقوں اور ستاروں کی پاکیزہ تابندگی
وہ جگہ ، سو رہی ہے جہاں پر چناروں کے اونچے درختوں سے
نتھری ہوئی جاں فزا چاندنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوشبوئیں خیمہ زن ہیں جہاں رات دن
میری ان سرحدوں تک رسائی نہیں
اور پچھم کی چنچل سریلی ہوا میرے آنگن سے ہو کر گزرتی نہیں
میں کہ بارش کے قطروں سے نتھرے ہوئے سبز پتوں کے بوسوں سے محروم ہوں
ان کواڑوں کی پرلی طرف دیر سے بند پھاٹک پر ٹھہرے ہوئے اجنبی
آس اور بے کلی حرف اور ان کہی کچھ نہیں!
میں نے کچھ بھی تو دیکھا نہیں
میرے کمرے کی سیلن ، گھٹن اور خستہ دواروں کے پیارے خدا
اور کچھ نا سہی تو مجھے اک گنہ کی اجازت ملے !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی باقی ماندہ نظمیں بھی ایسی ہی گہرائی اور گِیرائی لئے ہوتی ہیں ۔ وہ اپنے ارد گرد پھیلے دکھوں سے ایک کا چناؤ کرتی ہے اور ایک مصور کے بے رحم برش کی طرح اس کا قلم منظر بناتا چلا جاتا ہے ۔ اکثر یہ منظر دلخراش ہوتا ہے اور اس کا دکھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔
عام روش پہ رواں دواں اور مکھی پہ مکھی مارنے والے ہزارہا نظم نگاروں میں وہ اپنا ایک منفرد اور اعلیٰ مقام بناتی چلی جارہی ہے ۔
وہ کم کم لکھتی ہے لیکن جب بھی قلم اٹھاتی ہے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیتی ہے جو سب کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اوجھل ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں نے عصرِ حاضر کی شاعرات میں بہت کم ایسی بامقصد شاعری کرنے والی کوئی خاتون شاعرہ دیکھی ہے ۔
نظم پر اس کی گہری چھاپ نے بھی اس کو ایک نقصان پہنچایا اور وہ یہ کہ عام قاری اس کی غزل کی پہنائی و گِیرائی سے ناواقف سا رہا ۔
نینا عادل کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناگہاں دو جہاں زیرِ پا آگئے
کیسے کانٹے یہ نیناؔ نکالوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کے پار کس خموشی سے
ایک دریا اتارتے ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب سے روشنی کا سرا لوں گی میں
اور اندھیرے میں رستہ بنا لوں گی میں
آزماتا ہے مجھکو خدا، ۔۔۔۔۔ باخدا
ہاتھ جیسے دعا سے اٹھا لوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھلنے سے پہلے مرے خواب کو
توڑ ڈالے نا غفلت ذرا سی تری
یہ ادب، یہ محبت، یہ وارفتگی
اور شہزادیوں جیسی داسی تری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غبارِ ذات بیٹھے گا کوئی دن
گری ہے آخری دیوار تجھ میں
……….
ذرا سی موج لے کر آدمی کوڈوب جاتی ہےْ
سمند ر میں اترنا ہو تو کشتی نوح کی لاو
سبھی پہلے پہل ملتے ہیں بے حد گرم جوشی سے
ہمارے سامنے اپنا رویہ آخری لاو
………….
برباد ہوتے جائیں گے جتنا کرو گےتم
ہم کو تمھارا ہاتھ بٹانے کا شوق ہے
اظہار ، آس شوق ، تماشہ ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
…………….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنتی رہی بے مکانی مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار بار گوار ہے پارسائی کو
جو میری ذات پر بہتان تیرے جیسا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہماری یہ شاعرہ کیسے عام طور سے مستعمل قوافی اورردیفوں سے بچتے ہوئے اور پائمال مضامین سے بالکل الگ اپنی ایک الگ راہ نکالے چلی جاتی ہے ۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن اس کی اپنی محنت، اس کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور بہتر سے بہترکی جستجو اس کے کلام میں نکھار پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
جس طرح دیکھنے والی آنکھیں درویش کے اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اس ایک لمحہ کی منتظر ہوتی ہیں جب اس سے جانے یا انجانے میں کوئی کرامت سرزد ہوجائے ۔ بالکل اسی طرح نینا کے محبت بھرے دل پر نظریں جمائے اس کے چاہنے والے محبت کی کرامت کے منتظر رہتے ہیں جو اسکی شاعری کی صورت نمو پذیر ہوتی ہے ۔
ںینا عادل ۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے !
جیتی رہو اور لکھتی رہو۔۔۔۔۔۔۔
خدائے حرف و سخن تم پہ راہِ سخن اورآسان فرمائے، مزید ترقیاں اور قبولیتِ کلام نصیب ہو ۔
مجید اختر
۹ جولائی ۲۰۱۷ ع
انسیناڈا ۔ باھا کیلی فورنی
اظہار ، آس شوق ، تماشہ ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
…………….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنتی رہی بے مکانی مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار بار گوار ہے پارسائی کو
جو میری ذات پر بہتان تیرے جیسا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہماری یہ شاعرہ کیسے عام طور سے مستعمل قوافی اورردیفوں سے بچتے ہوئے اور پائمال مضامین سے بالکل الگ اپنی ایک الگ راہ نکالے چلی جاتی ہے ۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن اس کی اپنی محنت، اس کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور بہتر سے بہترکی جستجو اس کے کلام میں نکھار پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
جس طرح دیکھنے والی آنکھیں درویش کے اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اس ایک لمحہ کی منتظر ہوتی ہیں جب اس سے جانے یا انجانے میں کوئی کرامت سرزد ہوجائے ۔ بالکل اسی طرح نینا کے محبت بھرے دل پر نظریں جمائے اس کے چاہنے والے محبت کی کرامت کے منتظر رہتے ہیں جو اسکی شاعری کی صورت نمو پذیر ہوتی ہے ۔
ںینا عادل ۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے !
جیتی رہو اور لکھتی رہو۔۔۔۔۔۔۔
خدائے حرف و سخن تم پہ راہِ سخن اورآسان فرمائے، مزید ترقیاں اور قبولیتِ کلام نصیب ہو ۔
مجید اختر
۹ جولائی ۲۰۱۷ ع
انسیناڈا ۔ باھا کیلی فورنی
میں اعتراف کرتا ہوں کہ پہلے پہل جب نینا عادل کی شاعری پڑھی تو دھیان شاعرات کی اس سجی سجائی منڈی کی طرف چلا گیا ۔ جہاں عموماً خوبصورت اور خصوصاً متموّل خواتین کا ایک اژدھام طبعاً مخیر، اکثرمعتبراور بیشتردل پھینک قسم کے شعرا کی مدد سے اردو ادب کے روشن اُفق پر، اپنے تئیں، (وقتی) جھلملاہٹ کیلئے کوشاں و مصروف نظر آتی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں ادب سے متعلق دس کتابیں بھی نہیں پڑھی ہوتیں ان کے پانچ سات مجموعے منظرِ عام پر آکر ہم جیسے تہی دامنوں کا منہہ چڑاتے ہیں ۔
یہ امر ان چند ایک خواتین شاعرات کیلئے بہت دل شکن ہوتا ہے جو اپنی ذاتی محنت ، اُپج اورجینئوین تخلیقی جذبوں کے ساتھ آگے بڑھنا اورادب کے اُفق پر اپنا ایک جائز نام ومقام بنانا چاہتی ہیں ۔
دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے اور اب جو پلٹ کے دیکھا تو ایک سوال ذہن میں اُبھرا کہ نینا عادل جیسا تِیکھا لہجہ تو کسی مخیرشاعر تک کو نصیب نہیں ۔ تجسّس بڑھ گیا ۔ پھر انہیں اورپڑھا اورکچھ مزید جانکاری ان کے بارے میں حاصل کی ۔ پتہ چلا کہ ہمارے ہی شہرِ پُر آشوب سے تعلق ہے ۔ راوی کا کہنا ہے کہ ہمارے شہر کے شعرا وطنِ عزیزکے ادبی منظرنامے میں کما حقہم جگہ نہیں بنا پاتے چہ جائیکہ مسئلہ ایک خاتون کا ہو اور وہ بھی ایک حسین خاتون !
یقین مانئے نکتہٗ نظر ہی نہیں زاویہٗ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔
نینا کراچی یونیورسٹی سے وابستہ رہیں ۔ اردو اور انگریزی ادب میں ممتاز پوزیشن سے ماسٹرز کیا ۔ اردو، انگریزی اور مغربی ادب پر گہری نظر رکھتی ہیں ۔ وسیع المطالعہ بھی بہت ہیں ۔ (لیجئیے اس صفت کے ساتھ تو ہما شما کا کیا ذکر، کئی ایک بڑے بڑے ادیب و شاعر بھی فہرست سے خارج ہوگئے ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر نینا عادل کچھ نہ بھی لکھتیں اور صرف مغربی ادب ہی کا ترجمہ گاہے بہ گاہے پیش کرتی رہتیں تب بھی اپنا ایک الگ مقام بنا لیتیں۔
نینا کی شاعری سے متعلق ایک اور اہم امر یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ اچھوتے مضامین رقم کئے ۔ وہ ایک حساس اور محبت کرنے والی لڑکی ہے ۔ اپنے ارد گرد پھیلے دکھ دیکھ کر زخمی بھی ہوجاتی ہے اور پھر اس کا محبت بھرا دل امید کی کوئی نہ کوئی کرن بھی ڈھونڈ لاتا ہے۔ جب دکھ ہمہ گیر ہو اورتنگنائےغزل یا نظامِ نظم میں قید نا ہوپائے تو وہ بلاگز لکھتی ہے اور بلا کم و کاست لکھتی ہے، وہ اپنی جرآتمندی میں یہ پروا بھی نہیں کرتی کہ کہیں اربابِ سخن یا صاحبان عزّ وحشم کی جبینوں پر بل نہ پڑجائیں ۔
اس کی نظموں کے اچھوتے اور تیکھے عناوین و مضامین بھی سو فیصد اس کے اپنے ہیں ۔
تکمیل، سماں باندھو، وقت کے پاس گروی رکھی آنکھ سے ۔۔۔۔ ، آپ بیتی، کھیل جاری ہے، اے میرے شبد ، جوالا مکھی ، دھروٹ ، میں تیری نظم نہیں ہوں ، پلومیریا ، اپریل بہار کا استقبال کرتاہے اور تُو رقص کر جیسی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
یہاں میں ایک نظم شئر کرنا چاہوں گا:
جوادبیات کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی نینا عادل کی ایک تازہ نظم ہے ۔
اس کی دیگر نظموں کی طرح یہ نظم بھی ایک سے زیادہ بار قرآت کی متقاضی ہے ۔ پھر آپ اسے دوبار ، سہ بار اور بار بار پڑھتے چلے جاتے ہیں اور نینا کا پھیلایا ہوا دکھ کا بے کنارساگر آپ کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔
دیکھئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک بار اس نے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیا جو ہمارے ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے ۔
ً چاردیواری میں چنی ہوئی عورت ً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند کے اُس طرف خود اُگی جھاڑیوں میں لگی رس بھری بیریاں خوب تیار ہیں
پر مرے واسطے ان کو دامن میں بھر لینا ممکن نہیں
اے خدا! جگنووں ، قمقوں اور ستاروں کی پاکیزہ تابندگی
وہ جگہ ، سو رہی ہے جہاں پر چناروں کے اونچے درختوں سے
نتھری ہوئی جاں فزا چاندنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوشبوئیں خیمہ زن ہیں جہاں رات دن
میری ان سرحدوں تک رسائی نہیں
اور پچھم کی چنچل سریلی ہوا میرے آنگن سے ہو کر گزرتی نہیں
میں کہ بارش کے قطروں سے نتھرے ہوئے سبز پتوں کے بوسوں سے محروم ہوں
ان کواڑوں کی پرلی طرف دیر سے بند پھاٹک پر ٹھہرے ہوئے اجنبی
آس اور بے کلی حرف اور ان کہی کچھ نہیں!
میں نے کچھ بھی تو دیکھا نہیں
میرے کمرے کی سیلن ، گھٹن اور خستہ دواروں کے پیارے خدا
اور کچھ نا سہی تو مجھے اک گنہ کی اجازت ملے !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی باقی ماندہ نظمیں بھی ایسی ہی گہرائی اور گِیرائی لئے ہوتی ہیں ۔ وہ اپنے ارد گرد پھیلے دکھوں سے ایک کا چناؤ کرتی ہے اور ایک مصور کے بے رحم برش کی طرح اس کا قلم منظر بناتا چلا جاتا ہے ۔ اکثر یہ منظر دلخراش ہوتا ہے اور اس کا دکھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔
عام روش پہ رواں دواں اور مکھی پہ مکھی مارنے والے ہزارہا نظم نگاروں میں وہ اپنا ایک منفرد اور اعلیٰ مقام بناتی چلی جارہی ہے ۔
وہ کم کم لکھتی ہے لیکن جب بھی قلم اٹھاتی ہے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیتی ہے جو سب کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اوجھل ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں نے عصرِ حاضر کی شاعرات میں بہت کم ایسی بامقصد شاعری کرنے والی کوئی خاتون شاعرہ دیکھی ہے ۔
نظم پر اس کی گہری چھاپ نے بھی اس کو ایک نقصان پہنچایا اور وہ یہ کہ عام قاری اس کی غزل کی پہنائی و گِیرائی سے ناواقف سا رہا ۔
نینا عادل کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناگہاں دو جہاں زیرِ پا آگئے
کیسے کانٹے یہ نیناؔ نکالوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کے پار کس خموشی سے
ایک دریا اتارتے ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب سے روشنی کا سرا لوں گی میں
اور اندھیرے میں رستہ بنا لوں گی میں
آزماتا ہے مجھکو خدا، ۔۔۔۔۔ باخدا
ہاتھ جیسے دعا سے اٹھا لوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھلنے سے پہلے مرے خواب کو
توڑ ڈالے نا غفلت ذرا سی تری
یہ ادب، یہ محبت، یہ وارفتگی
اور شہزادیوں جیسی داسی تری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غبارِ ذات بیٹھے گا کوئی دن
گری ہے آخری دیوار تجھ میں
……….
ذرا سی موج لے کر آدمی کوڈوب جاتی ہےْ
سمند ر میں اترنا ہو تو کشتی نوح کی لاو
سبھی پہلے پہل ملتے ہیں بے حد گرم جوشی سے
ہمارے سامنے اپنا رویہ آخری لاو
………….
برباد ہوتے جائیں گے جتنا کرو گےتم
ہم کو تمھارا ہاتھ بٹانے کا شوق ہے
اظہار ، آس شوق ، تماشہ ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
…………….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنتی رہی بے مکانی مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار بار گوار ہے پارسائی کو
جو میری ذات پر بہتان تیرے جیسا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہماری یہ شاعرہ کیسے عام طور سے مستعمل قوافی اورردیفوں سے بچتے ہوئے اور پائمال مضامین سے بالکل الگ اپنی ایک الگ راہ نکالے چلی جاتی ہے ۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن اس کی اپنی محنت، اس کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور بہتر سے بہترکی جستجو اس کے کلام میں نکھار پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
جس طرح دیکھنے والی آنکھیں درویش کے اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اس ایک لمحہ کی منتظر ہوتی ہیں جب اس سے جانے یا انجانے میں کوئی کرامت سرزد ہوجائے ۔ بالکل اسی طرح نینا کے محبت بھرے دل پر نظریں جمائے اس کے چاہنے والے محبت کی کرامت کے منتظر رہتے ہیں جو اسکی شاعری کی صورت نمو پذیر ہوتی ہے ۔
ںینا عادل ۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے !
جیتی رہو اور لکھتی رہو۔۔۔۔۔۔۔
خدائے حرف و سخن تم پہ راہِ سخن اورآسان فرمائے، مزید ترقیاں اور قبولیتِ کلام نصیب ہو ۔
مجید اختر
۹ جولائی ۲۰۱۷ ع
انسیناڈا ۔ باھا کیلی فورنی
اظہار ، آس شوق ، تماشہ ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
…………….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنتی رہی بے مکانی مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار بار گوار ہے پارسائی کو
جو میری ذات پر بہتان تیرے جیسا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہماری یہ شاعرہ کیسے عام طور سے مستعمل قوافی اورردیفوں سے بچتے ہوئے اور پائمال مضامین سے بالکل الگ اپنی ایک الگ راہ نکالے چلی جاتی ہے ۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن اس کی اپنی محنت، اس کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور بہتر سے بہترکی جستجو اس کے کلام میں نکھار پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
جس طرح دیکھنے والی آنکھیں درویش کے اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اس ایک لمحہ کی منتظر ہوتی ہیں جب اس سے جانے یا انجانے میں کوئی کرامت سرزد ہوجائے ۔ بالکل اسی طرح نینا کے محبت بھرے دل پر نظریں جمائے اس کے چاہنے والے محبت کی کرامت کے منتظر رہتے ہیں جو اسکی شاعری کی صورت نمو پذیر ہوتی ہے ۔
ںینا عادل ۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے !
جیتی رہو اور لکھتی رہو۔۔۔۔۔۔۔
خدائے حرف و سخن تم پہ راہِ سخن اورآسان فرمائے، مزید ترقیاں اور قبولیتِ کلام نصیب ہو ۔
مجید اختر
۹ جولائی ۲۰۱۷ ع
انسیناڈا ۔ باھا کیلی فورنی
میں اعتراف کرتا ہوں کہ پہلے پہل جب نینا عادل کی شاعری پڑھی تو دھیان شاعرات کی اس سجی سجائی منڈی کی طرف چلا گیا ۔ جہاں عموماً خوبصورت اور خصوصاً متموّل خواتین کا ایک اژدھام طبعاً مخیر، اکثرمعتبراور بیشتردل پھینک قسم کے شعرا کی مدد سے اردو ادب کے روشن اُفق پر، اپنے تئیں، (وقتی) جھلملاہٹ کیلئے کوشاں و مصروف نظر آتی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں ادب سے متعلق دس کتابیں بھی نہیں پڑھی ہوتیں ان کے پانچ سات مجموعے منظرِ عام پر آکر ہم جیسے تہی دامنوں کا منہہ چڑاتے ہیں ۔
یہ امر ان چند ایک خواتین شاعرات کیلئے بہت دل شکن ہوتا ہے جو اپنی ذاتی محنت ، اُپج اورجینئوین تخلیقی جذبوں کے ساتھ آگے بڑھنا اورادب کے اُفق پر اپنا ایک جائز نام ومقام بنانا چاہتی ہیں ۔
دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے اور اب جو پلٹ کے دیکھا تو ایک سوال ذہن میں اُبھرا کہ نینا عادل جیسا تِیکھا لہجہ تو کسی مخیرشاعر تک کو نصیب نہیں ۔ تجسّس بڑھ گیا ۔ پھر انہیں اورپڑھا اورکچھ مزید جانکاری ان کے بارے میں حاصل کی ۔ پتہ چلا کہ ہمارے ہی شہرِ پُر آشوب سے تعلق ہے ۔ راوی کا کہنا ہے کہ ہمارے شہر کے شعرا وطنِ عزیزکے ادبی منظرنامے میں کما حقہم جگہ نہیں بنا پاتے چہ جائیکہ مسئلہ ایک خاتون کا ہو اور وہ بھی ایک حسین خاتون !
یقین مانئے نکتہٗ نظر ہی نہیں زاویہٗ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔
نینا کراچی یونیورسٹی سے وابستہ رہیں ۔ اردو اور انگریزی ادب میں ممتاز پوزیشن سے ماسٹرز کیا ۔ اردو، انگریزی اور مغربی ادب پر گہری نظر رکھتی ہیں ۔ وسیع المطالعہ بھی بہت ہیں ۔ (لیجئیے اس صفت کے ساتھ تو ہما شما کا کیا ذکر، کئی ایک بڑے بڑے ادیب و شاعر بھی فہرست سے خارج ہوگئے ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر نینا عادل کچھ نہ بھی لکھتیں اور صرف مغربی ادب ہی کا ترجمہ گاہے بہ گاہے پیش کرتی رہتیں تب بھی اپنا ایک الگ مقام بنا لیتیں۔
نینا کی شاعری سے متعلق ایک اور اہم امر یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ اچھوتے مضامین رقم کئے ۔ وہ ایک حساس اور محبت کرنے والی لڑکی ہے ۔ اپنے ارد گرد پھیلے دکھ دیکھ کر زخمی بھی ہوجاتی ہے اور پھر اس کا محبت بھرا دل امید کی کوئی نہ کوئی کرن بھی ڈھونڈ لاتا ہے۔ جب دکھ ہمہ گیر ہو اورتنگنائےغزل یا نظامِ نظم میں قید نا ہوپائے تو وہ بلاگز لکھتی ہے اور بلا کم و کاست لکھتی ہے، وہ اپنی جرآتمندی میں یہ پروا بھی نہیں کرتی کہ کہیں اربابِ سخن یا صاحبان عزّ وحشم کی جبینوں پر بل نہ پڑجائیں ۔
اس کی نظموں کے اچھوتے اور تیکھے عناوین و مضامین بھی سو فیصد اس کے اپنے ہیں ۔
تکمیل، سماں باندھو، وقت کے پاس گروی رکھی آنکھ سے ۔۔۔۔ ، آپ بیتی، کھیل جاری ہے، اے میرے شبد ، جوالا مکھی ، دھروٹ ، میں تیری نظم نہیں ہوں ، پلومیریا ، اپریل بہار کا استقبال کرتاہے اور تُو رقص کر جیسی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
یہاں میں ایک نظم شئر کرنا چاہوں گا:
جوادبیات کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی نینا عادل کی ایک تازہ نظم ہے ۔
اس کی دیگر نظموں کی طرح یہ نظم بھی ایک سے زیادہ بار قرآت کی متقاضی ہے ۔ پھر آپ اسے دوبار ، سہ بار اور بار بار پڑھتے چلے جاتے ہیں اور نینا کا پھیلایا ہوا دکھ کا بے کنارساگر آپ کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔
دیکھئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک بار اس نے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیا جو ہمارے ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے ۔
ً چاردیواری میں چنی ہوئی عورت ً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند کے اُس طرف خود اُگی جھاڑیوں میں لگی رس بھری بیریاں خوب تیار ہیں
پر مرے واسطے ان کو دامن میں بھر لینا ممکن نہیں
اے خدا! جگنووں ، قمقوں اور ستاروں کی پاکیزہ تابندگی
وہ جگہ ، سو رہی ہے جہاں پر چناروں کے اونچے درختوں سے
نتھری ہوئی جاں فزا چاندنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوشبوئیں خیمہ زن ہیں جہاں رات دن
میری ان سرحدوں تک رسائی نہیں
اور پچھم کی چنچل سریلی ہوا میرے آنگن سے ہو کر گزرتی نہیں
میں کہ بارش کے قطروں سے نتھرے ہوئے سبز پتوں کے بوسوں سے محروم ہوں
ان کواڑوں کی پرلی طرف دیر سے بند پھاٹک پر ٹھہرے ہوئے اجنبی
آس اور بے کلی حرف اور ان کہی کچھ نہیں!
میں نے کچھ بھی تو دیکھا نہیں
میرے کمرے کی سیلن ، گھٹن اور خستہ دواروں کے پیارے خدا
اور کچھ نا سہی تو مجھے اک گنہ کی اجازت ملے !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی باقی ماندہ نظمیں بھی ایسی ہی گہرائی اور گِیرائی لئے ہوتی ہیں ۔ وہ اپنے ارد گرد پھیلے دکھوں سے ایک کا چناؤ کرتی ہے اور ایک مصور کے بے رحم برش کی طرح اس کا قلم منظر بناتا چلا جاتا ہے ۔ اکثر یہ منظر دلخراش ہوتا ہے اور اس کا دکھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔
عام روش پہ رواں دواں اور مکھی پہ مکھی مارنے والے ہزارہا نظم نگاروں میں وہ اپنا ایک منفرد اور اعلیٰ مقام بناتی چلی جارہی ہے ۔
وہ کم کم لکھتی ہے لیکن جب بھی قلم اٹھاتی ہے ایک ایسے زخم پر سے پردہ اٹھا دیتی ہے جو سب کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اوجھل ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں نے عصرِ حاضر کی شاعرات میں بہت کم ایسی بامقصد شاعری کرنے والی کوئی خاتون شاعرہ دیکھی ہے ۔
نظم پر اس کی گہری چھاپ نے بھی اس کو ایک نقصان پہنچایا اور وہ یہ کہ عام قاری اس کی غزل کی پہنائی و گِیرائی سے ناواقف سا رہا ۔
نینا عادل کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناگہاں دو جہاں زیرِ پا آگئے
کیسے کانٹے یہ نیناؔ نکالوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کے پار کس خموشی سے
ایک دریا اتارتے ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب سے روشنی کا سرا لوں گی میں
اور اندھیرے میں رستہ بنا لوں گی میں
آزماتا ہے مجھکو خدا، ۔۔۔۔۔ باخدا
ہاتھ جیسے دعا سے اٹھا لوں گی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کھلنے سے پہلے مرے خواب کو
توڑ ڈالے نا غفلت ذرا سی تری
یہ ادب، یہ محبت، یہ وارفتگی
اور شہزادیوں جیسی داسی تری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غبارِ ذات بیٹھے گا کوئی دن
گری ہے آخری دیوار تجھ میں
……….
ذرا سی موج لے کر آدمی کوڈوب جاتی ہےْ
سمند ر میں اترنا ہو تو کشتی نوح کی لاو
سبھی پہلے پہل ملتے ہیں بے حد گرم جوشی سے
ہمارے سامنے اپنا رویہ آخری لاو
………….
برباد ہوتے جائیں گے جتنا کرو گےتم
ہم کو تمھارا ہاتھ بٹانے کا شوق ہے
اظہار ، آس شوق ، تماشہ ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
…………….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنتی رہی بے مکانی مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار بار گوار ہے پارسائی کو
جو میری ذات پر بہتان تیرے جیسا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہماری یہ شاعرہ کیسے عام طور سے مستعمل قوافی اورردیفوں سے بچتے ہوئے اور پائمال مضامین سے بالکل الگ اپنی ایک الگ راہ نکالے چلی جاتی ہے ۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن اس کی اپنی محنت، اس کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور بہتر سے بہترکی جستجو اس کے کلام میں نکھار پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
جس طرح دیکھنے والی آنکھیں درویش کے اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اس ایک لمحہ کی منتظر ہوتی ہیں جب اس سے جانے یا انجانے میں کوئی کرامت سرزد ہوجائے ۔ بالکل اسی طرح نینا کے محبت بھرے دل پر نظریں جمائے اس کے چاہنے والے محبت کی کرامت کے منتظر رہتے ہیں جو اسکی شاعری کی صورت نمو پذیر ہوتی ہے ۔
ںینا عادل ۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے !
جیتی رہو اور لکھتی رہو۔۔۔۔۔۔۔
خدائے حرف و سخن تم پہ راہِ سخن اورآسان فرمائے، مزید ترقیاں اور قبولیتِ کلام نصیب ہو ۔
مجید اختر
۹ جولائی ۲۰۱۷ ع
انسیناڈا ۔ باھا کیلی فورنی
اظہار ، آس شوق ، تماشہ ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
…………….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنتی رہی بے مکانی مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار بار گوار ہے پارسائی کو
جو میری ذات پر بہتان تیرے جیسا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہماری یہ شاعرہ کیسے عام طور سے مستعمل قوافی اورردیفوں سے بچتے ہوئے اور پائمال مضامین سے بالکل الگ اپنی ایک الگ راہ نکالے چلی جاتی ہے ۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن اس کی اپنی محنت، اس کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور بہتر سے بہترکی جستجو اس کے کلام میں نکھار پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
جس طرح دیکھنے والی آنکھیں درویش کے اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اس ایک لمحہ کی منتظر ہوتی ہیں جب اس سے جانے یا انجانے میں کوئی کرامت سرزد ہوجائے ۔ بالکل اسی طرح نینا کے محبت بھرے دل پر نظریں جمائے اس کے چاہنے والے محبت کی کرامت کے منتظر رہتے ہیں جو اسکی شاعری کی صورت نمو پذیر ہوتی ہے ۔
ںینا عادل ۔۔۔۔۔۔۔
بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے !
جیتی رہو اور لکھتی رہو۔۔۔۔۔۔۔
خدائے حرف و سخن تم پہ راہِ سخن اورآسان فرمائے، مزید ترقیاں اور قبولیتِ کلام نصیب ہو ۔
مجید اختر
۹ جولائی ۲۰۱۷ ع
انسیناڈا ۔ باھا کیلی فورنی