کراچی کے گنجان آباد علاقے میٹھادر میں بانٹوامیمن ڈسپنسری سے خدمت ِ خلق کاآغاز کرنے والے ایدھی نے کراچی کواور اس شہر نے ایدھی کو بے پناہ محبت دی ہے۔ اس شہر کی عام شاہراہوں پر عوامی اپیل کے ذریعے لاکھوں کروڑوں روپیہ اکھٹا کر کے فقیری میں شہنشاہی کرنے والے ایدھی کہتے تھے کہ میری نیت یہ نہیں کہ کسی کے پاس جا کر مانگوں بلکہ میں چاہتا تھا کہ قوم کو دینے والا بناوں۔ اس عظیم شہر کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ا س کی کشادہ سڑکوں پر چلتے ہوئے محسوس ہوتاہے یہ شہر بھی ایدھی کی طر ح بہت غریب پرور بے حد مہربان اور فراخ دل ہے۔
رمضان کے مقدس مہینے میں ایدھی کے شہر کی دریا دلی دیدنی ہوتی ہے۔تمام تر مسائل کے باوجود ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کے مرکز اس شہر میں لاکھوں لوگ حصول ِ روزگار کے لیے آتے ہیں۔ یہ مزدور پیشہ غریب لوگوں کے خوابوں کا بھرم رکھنے والا دل دار شہر ہے۔ ماہِ رمضان میں مزدور، مسافر، تنگ دست ا ور نادار لوگ اس شہر کے خاص مہمان ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چار ہزار سے زیادہ دسترخوان یہاں سجائے جاتے ہیں جو شہر کی چھوٹی بڑی شاہراہوں، سڑکوں، چورنگیوں، محلوں، بازاروں، نکڑوں، بس اسٹاپس، شامیانوں اور دیگر عوامی مقامات پر لگائے جاتے ہیں۔ بڑی چھوٹی گاڑیوں میں یا ٹھیلوں پر رکھ کر ٹھنڈے میٹھے مشروبات تقسیم کیے جاتے ہیں، کہیں بریانی اور پلاو ¿ کی دیگیں کہیں حلیم کی ڈونگے، کہیں سموسے، پکوڑے، چھولے، کچوریاں، کہیں کھجوروں اور طرح طرح کے پھلوں کا اہتمام، کہیں راہ گیروں میں منرل واٹر کی شفاف بوتلیں تقسیم کی جاتیں ہیں تو کہیں دودھ بھری بالٹیاں روزہ داروں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پورے شہر میں کسی ایک سڑک سے دوسری سڑک تک وقت ِ افطار سفر کر لیجیے چاہے آپ کار میں ہوں یا پیدل، سوٹڈ بوٹڈ ہوں یا ملیشیا کے سادہ کُرتے میں ایک کے بعد ایک نعمت ِ خداوندی آپ کو پیش کی جائے گی۔ کراچی کی مشہور شاہراہ شہید ِ ملت روڈ کا ہی ایک چکر لگا لیجیے، یہاں محمد علی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے چند طالب علم ہر سال کھجوروں، پیسٹری، سموسے پکوڑے وغیرہ سے بھرے ہوئے تین سو سے زائد ڈبے مسافروں میں تقسیم کرتے ہیں اور خود بھی انہی کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ آگے بڑھیے تو معروف آئل کمپنی کا بڑا سا ٹینکر اور سائن بورڈ۔ اس کے سامنے دستر خوا ن پر ڈھائی سو کے قریب افراد بیٹھے روزہ افطار کرتے ملتے ہیں، تھوڑا اور آگے بڑھیں تو ایک مذہبی جماعت بیسیوںافراد میں بریانی تقسیم کرتی دکھائی دے گی۔ روڈ کے دوسری
جانب بھی مخیر حضرات یونہی مسافروں کو کھانا کھلاتے اور ان کے ساتھ اسی سادگی سے خود بھی افطاری کرتے نظر آئیں گے۔ فلاحی تنظیمیں اپنے بینر تلے کتنے ہی ورکرز کو روزہ افطار کرواتی دکھائی دیں گی۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں غریب مزدور اور ورکر ان فلاحی تنظیموں اور نامعلوم مہربان میزبانوں کے سارا مہینہ مہمان رہتے ہیں۔ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں نیک دل گھریلو خواتین، مخیر حضرات، متحرک نوجوان، مختلف نجی ادارے اور فلاحی تنظیمیں اس قدر زیادہ تعداد میں دسترخوا ن سجاتے ہیں۔ یہ رونقیں دھورا جی، بہادرآباد، طارق روڈ، اختر کالونی، محمود آباد، منظور کالونی، نرسری، کالاپل، ڈیفنس، آئی آئی چندی گر روڈ، ٹاور، آرام باغ، آرام باغ، ایم اے جناح روڈ، گرو مندر، برنس روڈ، صدر، حیدری، شاہ فیصل کالونی، ملیر، فیڈرل بی ایریا، جیل چورنگی، ایم اے جناح روڈ، رنچھور لائن، پی آئی بی، حیدرآباد کالونی،، کورنگی، لانڈھی، لیاقت آباد، اللہ والا ٹاون، گارڈن، گولیمار، کریم آباد، حسین آباد، عزیزآباد،نیو کراچی، نارتھ کراچی، ناظم آباد، سرجانی ٹاو ¿ن، ماڑی پور، سائٹ، اورنگی ٹاو ¿ن، سولجر بازار، لائنز ایریا، میٹھا در، کھارا دراور دیگرعلاقوں میں قابل ِ دید ہیں جہاں بے شمار لوگوں کو اہتمام کے ساتھ افطاری اور کھانا کھلایا جاتاہے۔
ایدھی کے شہر کی دریا دلی کی ایک اور مثال یہاں آنے والے ان گنت گداگر ہیں ماہ رمضان ان گداگروں کا خاص سیزن ہے۔ ہزاروں لاکھوں گداگر ہر سال ملک کے مختلف حصّوں سے یہاں آن دھمکتے ہیں اور اپنے دامن ”مرادوں“ سے بھرتے نہیں تھکتے۔ شہر کے معروف و غیر
معروف بازار رات دو تین بجے تک کھلے رہتے ہیں جہاں خریداروں کی بھیڑ فقیروں کی عید کر دیتی ہے۔ شہر کی ہر بڑی چھوٹی شاہراہ پر دن رات یہ فقیر کسی نہ کسی ”شکار“ کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ کراچی کی بے شمار فوڈ اسٹریٹس میں یہ فقیر لذت ِ کام و دہن سے لطف اندوز ہونے والے شہریوں سے برگر،آئس کریم، بریانی، نہاری کچھ بھی کھانے کی فرمائش کرتے نظر آتے ہیں ( مختلف پکوان ہاوئسس اور نہاری کی چھوٹی بڑی دکانوں پر ان کی قطاریں سارا سال دیکھی جا سکتی ہیں )۔ شہر کے ہزاروں محلے،لاکھوں گلیاں ان بھکاریوں کی یلغار کے عادی ہیں جو ایک ایک دروازہ بجا کر بھیک کے بدلے دعائیں دیتے ہیں۔
نہ صر ف شہر کے لا تعد اد امام باڑوں، مسجدوں، مدرسوں اور جماعت خانوں میں سحری و افطاری کا اہتمام ہوتا ہے بلکہ یہ بھی ایدھی کے شہر کی روایت ہے کہ صرف اہل ِ ثروت ہی نہیں بلکہ سفید پوش لوگ بھی حسب توفیق ذاتی طور پر بھی اور ان عبادت گاہوں اور فلاحی اداروں کے توسط سے بھی سوالیوں اورضرورت مندوں کی کشادہ دلی سے مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بجلی، پانی، سیورج،ٹریفک، بڑھتی ہوئی آبادی، بے روزگاری جیسے بے شمار مسائل سے نبردآزما اس شہر میں زندگی اسی حوصلے اور ہنر کے ساتھ رواں دواں ہے جس حوصلے کے ساتھ ایدھی نے اس شہر کے بے حساب زخموں پر مرہم رکھا۔ایدھی نے سرمایہ داروں کے بجائے عام لوگوں سے چندہ لیا کہ فلاح و بہود کے کاموں کے لیے ان کا دل کشادہ ہو۔ یہ احسان بھی ایدھی کے ان گنت احسانوں میں سے ایک
ہے کہ اپنے لوگوں کی تربیت بھی کرتے رہے۔ وہ ساری زندگی جس شہرپر دریادلی سے محبتیں اورخلوص نچھاورکرتے رہے ان کا یہ شہر بھی ان کے جیسا ہے جس نے سخاوت کی اس بے مثال روایت کو ہر کڑے وقت میں زندہ رکھا
بلا تفریق ِ رنگ و نسل سب کو نوازنے کی یہ روایت بلاشبہ اسلامی تہذیب کے ان بچے کھچے اثرات میں سے ہے جن پر ہم کو فخر ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ کراچی اپنے گوناگوں مسائل اور اس پر ہونے والے مظالم کے باوجود نہ صرف صحتمند ذہن رکھتا ہے بلکہ اس میں معجزے کر دکھانے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔ اس شہر کا مزاج ہم اسد اللہ ام و ہم اسد اللہی ام کے مصداق غربت اور غریب پروری سے ڈھلا ہے جس میں ہزاروں سال کی روایات موجزن ہیں۔ دعا ہے کہ ہمارا پیارا شہر ہمیشہ ان روایات کو قائم رکھے۔