گزشتہ دنوں محترم وجاہت مسعود صاحب کی تحریر ’کیا ہم عورت دشمن ہیں؟ ‘نظر سے گزری۔ انہوں نے اس چشم کشا مضمون میں دوسروں کو بھی دعوت ِ فکر دی ہے کہ پڑھنے والے بھی اپنے حصّے کے چراغ روشن کریں۔ سوچتی ہوں اس تصویر کا ایک رخ اپنی جنس اور دوسراخاتون قلم کار کی حیثیت سے دکھاوں کہ عورت دشمنی میں ہمارے سماج کا دانشور طبقہ کس قدر پیش پیش رہتا ہے۔
اس تعصّب کی جڑیں تاریخ کی ناہموار زمین میں بہت گہری ہیں۔ فلسفے اور مذہب کے شارحین نے عورت کو ایک وحشی، نجس، بے عقل اور نامکمّل مخلوق بنا کرمعاشرے کے آگے مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا۔ سقراط نے اسے دفلی کادرخت قرار دیا توافلاطون نے کہا کہ مردوں کے برے اعمال انہیں عورت بنا دیتے ہیں، ارسطو نے اپنے آقاؤں کی تقلید میں مرد کو بادشاہ اور عورت کو کنیز قرار دیا۔ مرد حاکم، عورت محکوم اور مطیع؛ مرد دانائی اور عورت ناسمجھی کا مرقع، یونان جیسے علم اور تمدن کے اولین گہوارے کی ہی کیا مثال عرب، روم، ایران، یہودیت اور عسائیت سمیت بے شمار معاشروں کی مذہبی، سیاسی اورمعاشرتی تاریخ بھی جبرو استحصال کے سیاہ اوراق سے بھری پڑی ہے۔ ’عورت‘ کو آدم کی پسلی سے جی بہلانے کو پیدا کیا گیا، ایک کم اصل وجود جس نے بالاآخر اسے جنت سے نکلوا دیا۔ ہندومعاشرے میں اس کی حیثیت جانچنے کے لیے ستی کی رسم ہی بہت ہے۔ وچ ہنٹ جیسا گھناونا ماضی رکھنے والے یورپ میں نطشے جیسے مفکروں کی عورت دشمنی بھی کوئی راز نہیں۔ کسی مذہب نے اسے وراثت کے بنیادی حق سے محروم کیا تو کسی کے پیروکاروں نے اس کی گواہی کی آدھی حیثیت چھین کر اس کے تشخّص اور احساس کو مجروح کیا۔ کبھی سینٹ آگسٹائن جیسے اللہ والوں نے اس ’ ناپاک ‘ شے سے محبت نہ کرنے کی سخت تلقین کی تو کبھی ترکِ دنیا کی تعلیم دینے والوں نے سب سے پہلا وار عورت پر کیا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو اور شائد ہی کوئی دور ہو جہاں اور جب اپنے گناہوں کا ذمہ دار عورت کو نہ ٹھہرایا گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر عورت پاس ہوگی تو اولاد بھی ہوگی، خانہ داری بھی ہوگی، اور ان کے لیے رزق فراہم کرنے کی ذمّہ داری بھی۔ اس لیے اپنی کم ہمّتی، کاہلی، خوف اور بزدلی کو ترکِ دنیا کا چولا پہنا کر بہانہ عورت کو بنا دیا، کہ عورت ہی ساری دنیاوی آلائش کی جڑ ہے۔
انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ کسی بچی کے بالغ ہوتے ہی بڑی بوڑھیاں والدین کو یہ کہہ کر ستانے لگتی ہیں کہ جب لڑکی جوان ہوتی ہے تو گھر کی دیواروں سے خون برسنے لگتا ہے، سو جلد از جلد اس نجاست کو کسی دوسرے کے سر منڈھ دو۔ ایک بار شادی جیسے مقدس فریضے کے حوالے سے جان آسٹن کے ناول پرائڈ اینڈ پرجوڈس پر نوٹ لکھتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے تھے کہ صرف ہمارے مذہب اور معاشرے نے مرد کو دنیا اور آخرت کی پہلی اور آخری فاتح شخصیت قرار دیا ہے مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ مغربی معاشرہ عورت کے لیے کیسا تنگ نظر رہا ہے جہاں اس کے لیے نہ علم کے دروازے وا تھے نہ اسے کاروبار کرنے کیاجازت تھی نا ووٹ ڈالنے کا حق اور نہ ہی اس کا وراثت میں حصّہ تھا۔ اس کے کل مستقبل کی ہر آسائش اور تحفّظ کا دارومدار ایک مرد کی آمدنی اور رویّے پر ہوتا تھا۔ سو شادی ایک طرح کی سودے بازی اور لین دین تھی (جیسا کہ ہمارے ہاں اور بہت سی دیگر جگہوں پر اب بھی ہے)۔ شاید جان آسٹن نے اسی وجہ سے تمام عمر شادی نہیں کی کیونکہ وہ اپنی حسّاس اور قیمتی روح کا اتنا سستا اور مادّی سودا قبول ہی نہیں کر سکتی تھی۔
یوں تو یہ بھی سچ ہے۔۔۔۔ کہ اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے جس نے ڈالی بری نظر ڈالی، مگر ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں جنہیں خوش شکل نہ ہونے کے باعث طلاق دے دی جاتی ہے کیوں کہ کئی بچوں کی پیدائش کے بعد ان کے خاوندوں کو خیال آتا ہے کہ دلہن وہی جو پیا من بھائے۔ مگر دیکھیے ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ کل ہی معلوم ہوا کہ پنجاب کے جنوبی شہر لیہّ میں ایک نابینا خاتون کو، جس کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اس سے امّید کی روشنی بہت پہلے چھینی جا چکی تھی، ایک شخص نے زکوة دینے کے بہانے اپنے گھر بلا کر دو دوستوں کے ساتھ مل کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ سو کیا کوئی الہڑ دوشیزہ اور کیا کوئی چار بچوں کی ماں، شکار ہونے کے لیے تو اس کا عورت ہونا ہی کافی ہے۔ کچھ دن قبل ایبٹ آباد میں جرگے کہ حکم پر ایک سولہ سال کی بچی کو ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ کچھ دن پہلے ملتان کے قریب کسی نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک چودہ سالہ بچّی نے باپ کے خوف سے ٹائی فون پی کر خود کو ختم کر لیا، کیونکہ باپ نے اس بچی کے ہاتھ میں موبائل دیکھ لیا تھا۔ بچّی کے والدین بہت پرسکون ہیں کہ بدنامی کی ممکنہ داستان منوں مٹی تلے جا سوئی اور خاندان کی عزت بچ گئی۔ میں نے پوچھا پولیس کو اطلاع نہیں دی گئی؟ کیا معلوم بچی کو زبردستی زہریلی چیزپلائی گئی ہوتو جواب ملا اونہہ ایسی بے غیرت کو پلا بھی دی ہو تو کیا دکھ۔ اب وہ سارے گاؤں کی بچیّوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئی، ورنہ جانے یہ موبائل کی گند کیا تباہی مچاتی۔ ہماری گلی کے نکڑ پر ایک قلعہ نما مکان ہے جس کے مکین ایک مولانا صاحب پانچ بیٹیوں کے سخت گیر باپ ہیں۔ ان کے گھر کی کھڑکیاں بھی دروازوں سے زیادہ ساکت و جامد ہیں۔ تین منزلہ عمارت کے اوپر بنے ہوئے کھلے صحن کی دیواریں بھی اس قدر اونچی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گھر کے سب افراد قلعہ بند ہو چکے ہیں۔ بہر حال ایک دن ان کی تیسری بچّی کسی لڑکے کے ساتھ راتوں را ت غائب ہو گئی۔ تین دن کی تلاش کے بعد پولیس نے ڈھونڈ نکالا اور ایک رات اپنا مہمان بنائے رکھا۔ پھر گھر بھیج دیا۔ یہ تو خیر بتانے کی ضرورت نہیں کہ بچّی پر کیا گزرتی ہوگی، مگر ہاں مولانا صاحب کو اب محلّے میں کوئی ان کے نام سے نہیں بلاتا۔ اب تو ان کی شناخت کی علامت یہی چند الفاظ رہ گئے ہیں ’ وہ ہیں کونے والے حضرت جن کی بچی بھاگ گئی تھی‘۔ مگر وہ جس کے ساتھ گئی تھی وہ اس واقعے بعد بھی اگر تین چار کو اور بھگا چکا ہو تو بھی بھگوڑا تھوڑے ہی کہلائے گا۔ ایسی چند نازیبااصطلاحات تو معاشرے میں صرف عورت کے لیے مخصوص ہیں، جیسے بے حیا، جنموں جلی، چڑیل ڈائن، کٹنی، چھمک چھلو، نحوست کی پوٹ اور آفت کی پڑیا وغیرہ وغیرہ
اب تصویر کاایک اور رخ دیکھتے ہیں۔ بحیثیت خاتون شاعر و ادیب یہ بھی اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ’ کہتی ہے مجھے خلق ِ خدا غائبانہ کیا۔ لگ بھگ تمام ہی لکھنے والیوں نے کبھی نہ کبھی اس قسم کے خاردار سوالات کی چبھن ضرور محسوس کی ہوگی کہ محترمہ کس سے لکھواتی ہیں؛’ کس استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا ہے؟ کہاں کہاں اور کس غرض سے بلوائی جاتی ہیں؛ ان کے یار دوستوں میں کون کون شامل ہے اورکون کتنا قریبی ہے؟ یہ کیسے اور کہاں بیٹھتی اور کب اور کیوں اٹھتی ہیں، یہ ترقّی کی کونسی سیڑھی پر کس کے بل بوتے کھڑی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ مگراس عورت دشمنی میں لکھنے والیوں کے صرف فن اور ہنر کو ہی نہیں رگیدا جاتا بلکہ ان کے جسمانی خطوط، نین نقش، رنگت اور عمر کے ساتھ ساتھ تخلیق کار خواتین کے اہل خانہ پر بھی لعنت ملالت کی جاتی ہے۔ مرد شاعر ہوتو شراب اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرنے کا ذریعہ بتائی جاتی ہے جب کہ خواتین کے کام کو مذہب کی عینک لگا کر دیکھا جاتا ہے۔ جس کے سر پر دوپٹہ نہیں وہ کافر تو اب اسی لائق ہے کہ الفاظ کے پتھر برساتے رہیے، تاکہ اس کا کردار اتنا مسخ ہوجائے کہ آپ کی انا کی تسکین ہوجائے۔ اس لیے مجھے ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی جب گزشتہ دنوں ایک سینئر شاعر نے کراچی کی ایک شاعرہ کی نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً ساری معروف شاعرات کو کوئی نا کوئی لکھ کر دیتا ہے، یا جب ایک معروف شاعر کو یہ بھی کہتے سنا کہ ان لکھنے والیوں کے خصموں کو باندھ کر بازار میں گھسیٹنا چاہیے۔ اس دشنام طرازی پر دکھ یو ں نہیں ہوتا کہ کھلم کھلا بکی جانے والی یہ مغلّظات ان پوشیدہ کلمات اور پیغامات سے بہر حال کم ہی تکلیف دہ ہیں جو یہ مجاہدین ادب دھمکانے ڈرانے، اکسانے اور پھسلانے یا گھر بار برباد کر دینے کی غرض سے بھیجتے رہتے ہیں۔ حیرت تماشے پر نہیں تماشائیوں کی خاموشی پر ہوتی ہے۔ ادب کے یہ نام نہاد جہادی اتنے کور چشم ہیں کہ وہ یہ تک نہیں جانتے کہ یہ کتنی لمبی دوڑ ہے۔ اسے لاٹھیوں کے سہارے بھی کوئی جیت سکتا ہے بھلا؟ کون کس قابل ہے اس کے مقام کا فیصلہ وقت آپ کر دیتا ہے۔ سو مجھے کبھی ان کم نظروں کی کوتاہ نگاہی پر ترس آتا ہے کبھی ان کے مضحکہ خیز تبصروں پر ہنسی اور کبھی تعصب کی آگ میں دہکتے ان کے فقروں سے کان کی لویں بھی جل اٹھتی ہیں۔ مگر میں ان گھٹیا رویّوں کو نظر اندازکر کے بے نیازی کے کشادہ رستے پر چلتی جاتی ہوں، کیوں کہ میرے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے۔
مجھے دن میں دیر تک اپنے بچوں کو پڑھانا ہوتا ہے۔ کھیل کود اور باتوں باتوں میں ان کی تربیت کرنی ہوتی ہے، اپنے شوہر کی مسائل اور ان کی تھکن بانٹنی ہوتی ہے۔ گرم روٹی اور تازہ سالن بنانا ہوتا ہے۔ اپنی بیمار ماں کی خدمت کرنی ہوتی ہے۔ کتنے ہی تعلّق، کتنے ہی رشتے، کتنی ہی رواداریاں نبھانی ہوتی ہیں۔ اپنے شاگردوں میں علم کی محبّت، کچھ کر دکھانے کا حوصلہ، کچھ پا لینے کی جستجو اور مستقبل کے خواب بانٹنے ہوتے ہیں۔ روز ہی کتابیں پڑھنی ہوتی ہیں اور کچھ احساسات، کچھ خیالات قلم بند کرنے ہوتے ہیں۔ اتنے سارے کاموں کے لیے چوبیس گھنٹے کا ایک دن بہت چھوٹا بہت کم پڑجاتا ہے۔ کتنے ہی ضروری کام میری راہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محبتوں کے ہی قرض ادا نہیں ہو پاتے نفرتوں کا کھاتہ کون کھولے سو میں نے اپنی ایک نظم میں ان عورت دشمنوں کو ہمدردانہ مشورہ دیا !
”کھیل جاری رہے“
بے جھجک، بے خطر
بے دھڑک وار کر
میری گردن اُڑا
اور خوں سے مرے کامیابی کے اپنی نئے جام بھر
چھین لے حسن و خوبی، انا، دلکشی
میرے لفظوں میں لپٹا ہوا مال وزر
میری پوروں سے بہتی ہوئی روشنی
میرے ماتھے پہ لکھے ہوئے سب ہنر
تجھ سے شکوہ نہیں
اے عدو میرے میں تیری ہمدرد ہوں
تیری بے چہرگی مجھ کو بھاتی نہیں
تجھ سے کیسے کہوں!!!
تجھ سے کیسے کہوں !قتل کرنا مجھے تیرے بس میں نہیں
(اور ہو بھی اگر، تیری کم مائیگی کا مداوا نہیں )
ہاں مگر تیری دل جوئی کے واسطے
میری گردن پہ یوں تیرا خنجر رہے
(تیری دانست میں )
کھیل جاری رہے