شبد کی گونج
نینا عادل کی شاعری میں نے پہلی بار فیس بک پر بہت عرصہ پہلے پڑھی تھی ۔ اس کے بعد شاید ہی کوئی دن ایسا گیا ہو گا جب میں نے نینا عادل کو فیس بک پر تلاش نہ کیا ہو ۔ ان کے اشعار ایک نئے تخلیقی جمال کا ان کی فکر ایک جداگانہ احساس کا مرکز ہے۔ان کی نظمیں ، غزلیں ، گیت ان کے اشعار انسانی فکرو شعور کے ان متحرک دائروں میں گونجتے ہیں جہاں ہر خیال اور ہر شبد طرح طرح کی صورتیں بدلتاہے اورانسانی وجود ، اس کی سوچ ، اس کے خیال اوراس کے جذبات پر مستقل اثر انداز ہوتا ہے ۔ نینا کی شاعری ہمیں جذبات کی ان پگڈنڈیوں پر لے جاتی ہے جہاں ہمارااحساس ایک بنجارے کی مانند ہمارے دلوں میں ہلچل مچاتے ہوئے ان کی نظمیں اور اشعار گنگنائے چلا جاتا ہے ۔ نینا کی شاعری میں شبد کی گونج ہے اوروہ شبد صرف حرف نہیں ہے وہ دل کے کسی تاریک غار میں سسکتے ہوئے جنم لینے والا ایک ایسا نادیدہ احساس ہے جو جب بولا یا لکھا جاتا ہےتو ایک گونج جسے سنسکرت میں ناد ( Naad)کہا جاتا ہے کا روپ اختیار کر لیتاہے۔
ہندوستان سے شائع ہونے والے ان کے تازہ مجموعے کا نام بھی ْْ شبدٌ ہے ۔ معلوم ہوتا ہے شبد ان پر یوں کھلا اس کی پر تاژیر گونج ۔۔۔۔۔۔انہیں فکر وفن کی ان بلندیوں پر لے گئی جہاں یہ انہونی گونج سر سنگیت میں بدل کر شاعری میں ڈھل گئی ۔ تب ہی ان کی شاعری کو ” کھڑی بولی کا سنگیت ” کہا گیا ہے ۔ ان کی نظم اے مرے شبد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ شبدوں کو ہی ْْمہا دھن ٌٌ تصور کرتی ہیں جب وہ کہتی ہیں
اے مرے شبد مرے بھید مہادھن میرے
رات میں خوشبو تری نیند میں بوسہ تیرا
ان کی نظموں میں ایک تڑپ ، ایک ادھورا پن ، ایک خلش اور ناتمام آرزوں کا احساس تمام تر فکری توانائیوں کے ساتھ گونجتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ ان کی غزلوں میں عشق اور اس کی لذت اور درد کا لطیف و شیریں احساس عجب انداز میں دلوں کو گدگداتا ہے۔ انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں اور ان سے پیدا ہونے والی تلخیاں اور الجھنیں نینا کے ہاں کچھ اس انداز میں اشعار میں ڈھلتے ہیں کہ پڑھنے والا ان میں بیک وقت ایک پھانس کی چبھن اور ایک لطیف کسک محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا ۔ ” شبد ٌٌ میں شامل چند اشعار پیش ِخدمت ہیں
میں ترا در ، ترا روگ ، دوا بھی تیری
سایہ بیماری مرا ، اس میں شفا بھی تیری
،
خواب میں تجھ کو محبت کی بشارت ہو گی
یہ صلہ بھی ہے بیک وقت سزا بھی تیری
،
بوجھ اپنا سہارتے ہیں ہم
کون سا تیر مارتے ہیں ہم
ہر نئی شام اپنے پہلو میں
ایک سائے کو مارتے ہیں ہم
کوئی بھی تو نہیں ہے کوئی بھی
جانے کس کو پکارتے ہیں ہم
،
تیرے عکس سے میری ذات میں ہے لطیف ہجر و وصال سا
دم ِ صبح کوئی امنگ سی ، سرِ شام کوئی ملال سا
،
ہجرت ازل سے مرے اجداد کاشعار
مجھ کو بھی ایک ناو بنانے کا شوق ہے
،
اظہار ، آس شوق ، تماشا ، فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
،
برباد ہوتے جائیں گے جتنا کرو گے تم
ہم کو تمھارا ہاتھ بٹانے کا شوق ہے
،
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنستی رہی بے مکانی میری
۔
مری خوشبو مرے اسرار تجھ میں
میں شامل ہوں جمال ِ یار تجھ میں
غبار ِ ذات بیٹھے گا کسی دم
گری ہے آخری دیوار تجھ میں
،
پھولوں کے بھید کھلتے نہیں چار روز میں
خوشبو کے ساتھ عمر بِتا و تو بات ہے
،
ناگہاں دو جہاں زیر ِ پا آ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔!
کانٹے کیسے یہ نینا نکالوں گی میں
نینا کی شاعری خود میں اپنی مثال آپ ہے ۔ الفاظ کی یہ بنت ، تخیل کی یہ پرواز، یہ خوب صورت تہذیبی رچاو ، احساس و افکار، حرف و بیان کی یہ جدت اور ندرت جو نیناعادل کی شاعری کو درجہ ء کمال تک پہنچا دیتی ہے یہ اوج اور بلندی روایتی اورعام نسائی شاعری کی دسترس سے باہر ہے۔
نینا کی شاعری پڑھتے ہوئے کئی بار ایسا لگتاہے کہ میں بحر الکاہل کے اس بڑے جزیرے پر پہنچ گیا ہوں جہاں پال گوگاں (Paul Gauguin) اپنے خیالات میں ڈوبا نیلگوں آسمان ، سمندر ، تیرتی ہوا سے رنگ سمیٹتا ہوا کوئی بیش قیمت پینٹنگ تخلیق کر رہا ہے۔ جہاں صرف وہ ہے اس کا تصور ہے اور ان احساسات کا نچوڑ ہے جو اس نے زندگی کے تلخ و شیریں حقائق سے حاصل کیے ہیں ۔ نینا کے شعری خاکوں میں ان رنگوں کا پھیلاو دیکھااور محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
ایسا بھی ہوا ہے کہ میں نے نینا کا کوئی شعر پڑھا اوراس کی گونج میرے ذہن کے متحرک گوشوں میں گنگناتی جا رہی ہے ، کئی گھنٹوں کئی پہروں یا ایک مدت تک اسی لیے مین نے کہا کہ نینا کی شاعری میں کی شبدوں کی سریلی گونج ہے
جگدیش پرکاش