اگر اردو فکشن لکھنے والوں میں اس وقت کسی شخص کا لکھا ہوا پریفیس یعنی دیباچہ بھی مِس نہیں کیا جاسکتا تو وہ خالد جاوید صاحب ہیں۔ میں نے حال ہی میں ان کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل “نینا عادل “ کی کتاب “شبد” میں دیکھا۔ نینا عادل کی نظموں کی جانب میری توجہ بھی انھوں نے ہی دلائی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ نینا کی کچھ نظمیں “روشنیاں “ کا حصہ بھی ہیں ۔نینا عادل کی کتاب شبد یوں تو نظموں اور غزلوں کی کتاب ہے ، مگر ان کی نظمیں ، ان کی غزلوں کے مقابلے کہیں زیادہ کامیاب ہیں ۔ نینا نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ان کے اور ان کے خوابوں کے بیچ جاری جنگ میں آخر کار ان کے خوابوں کی جیت ہوئی اور انھوں نے ہر اس نظریے اور تھوپی ہوئی فکر سے بغاوت اور بےزاری محسوس کی جو ان کی زندگی کا حصہ تھی، انھوں نے اپنے راستے میں اپنی ہی کھڑی کی ہوئی دیوار کو گرایا۔ خالد صاحب نے ان نظموں بارے میں بڑی کام کی باتیں کی ہیں ، ایک جگہ لکھا ہے کہ “نینا عادل کی شاعری میں ابہام سے زیادہ اسرار ہے، ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ان نظموں میں بھاؤ کی اہمیت پر زور دیا ہے ، جو کسی خیال ، احساس اور جذبے سے بالکل الگ اثر ڈالنے والی چیز ہے۔ خالد صاحب نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ نینا عادل نے “لفظ” کے بجائے شبد کو کیوں ترجیح دی جبکہ اردو میں شبد کی جگہ لفظ کا آپشن موجود تھا، پھر اس کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قدیم ہندی فلسفے میں “شبد “ پر ایک لمبی چوڑی بحث موجود ہے اور یہ لفظ اپنے میٹافیزیکل فہرست میں لفظ کے مقابلے کافی اہم ہے۔
۔ جہاں تک میرا خیال ہے نینا عادل کی نظمیں اپنی شعری بُنت میں کوئی ایکسٹراآرڈینری کمال نہیں دکھاتی ہیں ، ان کے یہاں آزاد اور نثری دونوں طرح کی نظمیں ہیں۔ آزاد نظموں میں جہاں کسی خاص بحر کی پابندی ضروری ہوتی ہے ، مصرعوں کی موسیقیت کہیں نا کہیں ان کے خیال کو ماند کردیتی ہے جبکہ نثری نظم میں وہ سادگی کے ساتھ اپنی بات کہتے ہوئے بڑی گہری فکری باتیں کہتی جاتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ بڑی نظمیں تو خیر مگر چھوٹی موٹی نظموں پر بھی ان کی فکر کے یہ تاراچھا خاصااثر چھوڑتے ہیں۔آبرو ریزی کے بعد “ اور خمیازہ دونوں ایسی ہی نظمیں ہیں ، میں وہ دونوں یہاں لکھ دیتا ہوں
آبرو ریزی کے بعد رات
قتل کردی جاتی ہے
اوراس کے جوان جسم پر دن کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے
دوسری نظم:
ہر ماں نے فکری مبحث میں
بچہ جننے کی غلطی کی
ہر ماں بھگتے گئی خمیازہ
کہیں وہ ن م راشد جیسے بڑے شاعر کی نظم “ شاعر درماندہ” میں مشرق کا خدا کوئی نہیں کا جوب دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ مشرق کا خدا نہ صرف زندہ ہے بلکہ اسے زندہ رکھنے کی وجہ یہاں اس کی بھر پور خریداری ہے۔ نینا نے اپنے علم اور ادبی معلومات کو جس طرح اپنی نظموں کا حصہ بنایا ہے وہ کمال کی بات ہے۔ ایمیلی برانٹے کی ودرنگ ہائٹس کی پر استعاریت نے ان پر جو اثر ڈالا ہے اس کا تو ایک رنگ خاص طور پر ان کی شخصیت میں دکھائی دیتا ہے، پھر شاعری تو بہت حد تک اسی کا عکس ہے ، ایمیلی پر ان کی ایک نظم بھی اس کتاب میں موجود ہے ۔ اسے طرح ڈی ایچ لارینس کے ناول سنس اینڈ لورس سے منٹو کی کہانی بو تک ان کے یہاں سوالوں اور خیالوں کا ایک چھوٹا مگر کمال کا سلسلہ ہے۔ مہاجر ہونے کے احساس کو بھی انھوں نے اپنی ایک نظم میں نمایاں کیا ہے ۔ مجھے ان کی بیش تر نظمیں پڑھ کر لگا کہ ان یہاں عورت ایک عجیب سے خوف اور اندیشے کا شکار ہے، ان کے یہاں کی عورت وہ خود بھی ہیں اور ان کو نظر آنے والے دوسرے عورتوں کی وہ زندگی بھی جو اپنے پیلے پن کو لالی میں کچھ دیر چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اپنے پیش لفظ میں اپنے ہم سفر کا شکریہ ادا کرنے والی ، اس کی رفاقت ، ساتھ اور سمجھ کا داد دینے والی ایک عورت کے یہاں سماج کس حد تک دخل اندازی کرتا ہے کہ وہ ایسی نظمیں لکھنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ نینا عادل کی نظمیں پڑھی جانی چاہیے اور ان پر بات ہونی چاہیے کیوں کہ انھوں نے اپنے وجود کے تمام بھیدوں کو نظم کی پناہ میں دے کر آزادی کی زنجیر پہنی ہے میں ان نظموں کے اسٹائل سے زیادہ ان میں موجود باتوں پر غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ نظم لکھنے والے کی بڑی کامیابی ہے کہ وہ اپنی گھن گرج کی بجائے اپنی سادگی سے آپ کو گھٹنے پر کہنی ٹکانے کے لیے مجبورکردیتی یے
1 july 2018
Tasneef Haider