نینا عادل
شبدوں کے سنہری رتھ پر سوار شاہ زادی
برس بیتے اس منظر کو دیکھتے، ایک شہزادی سنہری الفاظ کے رتھ پر سوار بڑی شان سے آنکھوں کے سامنے آتی ہے، گنگناتی ہے، چڑیوں کی طرح چہچہاتی ہے، دھاڑیں مار مار کر روتی ہے، اپنی آنکھیں ملتی، خوابوں کے پہناوے میں نجانے کس کی دھڑکنیں شمار کرتی ہے، سہمے سہمے شبد اپنے سینے سے لپٹا کر دن کا زہر پی کر نیلی ہوتے ہوئےشفق کی سرخیوں کا غازہ اپنے گالوں پر ملتی ہےاور روشنی، سبزہ، حسن اور حیرت کو اپنی جاگیر بتاتی ہے؛ ظلمت، خزاں، وقت کی تیز دھوپ اور ایقان کو کوئی عفریت سمجھتی ہے، کہتی ہے کہ اسے تکمیل کی ضرورت ہے، کبھی اس تکمیل کی خاطر خود اپنے آپ میں ضم ہوتی ہے اور کبھی اپنے آپ سے جدا، اپنی سوچوں کے، اپنی سانسوں کے زیر و بم میں ایسا توازن لاتی ہے، اپنے پاؤں پر سجے گھنگھروؤں کو ایسا مشتعل کرتی ہے کہ اس کے سامنے آنے والے ہر نفس کی روح تک اس تھاپ پر دھڑکنے لگتی ہے، اپنے خوابوں کا گھونگھٹ اوڑھے اپنے رتھ میں سے جھانکتی ہے، اجالوں اور بہاروں سے گلہ کرتی ہے اور کسی معصوم سے بچے کی طرح نبضِ کائنات کو رقصاں رہنے کا حکم دے ڈالتی ہے۔
عجیب زمیں زاد ہے، جو کبھی خود سے، کبھی تتلیوں سے، کبھی قدرت کی خوبصورتیوں اور بد صورتیوں سے، کبھی بادلوں اور ہواؤں سے، کبھی ہواؤں کے چلنے سے بجتی ہوئی آہٹوں کی جلترنگ سے انہی سب کے الفاظ کی چادریں اوڑھے لکنت بھری آسمانی باتیں کرتی ہی چلی جاتی ہے۔
وہ معصومیت ہی کیا جس میں بناوٹ در آئے، وہ حسن ہی کیا جسے اپنی خوبصورتی کو ہر وقت احساس رہے، وہ فن ہی کیا جس میں بے ساختگی نہ مل سکے، اس شہزادی کے نغموں میں موجود جذبے اور ان کا اظہار اپنی خام صورت میں موجود ہے، جو کسی بھی فنکار کے فن کی سچائی کی پہلی شرط ہے۔ جو شاعر ایسے اشعار کہہ سکتی ہے کہ
ہے صحرا نوردی تو آسان مجنوں
اگر تجھ کو پڑ جائے گھر بار کرنا!!
سنو ! سانس لینے کو کرتا ہے جی اب
سنو کیا ابھی بھی اجازت نہیں ہے؟
کوزہ گر مری مٹی
بھربھری سے ہے!! کیوں ہے؟
بوندوں کی چھیڑ چھاڑ سے، پانی کے کھیل سے
اک کھوکھلے حصار میں پتھر بدل گیا
تو ایسے اظہار کے لئے دل سے والہانہ طور پر واہ نہ نکلے تو اور کیا ہو؟
اسی طرح اس نظم میں ’’زومنگ ان‘‘ کا خوبصورت نمونہ ملاحظہ ہو
ایک پرانے بکسے میں
بوسیدہ کپڑوں کے نیچے
کاغذ کے پرزوں کے پیچھے
تعویزوں، تاگوں کے بھیتر
دھات کے میلے ڈبے میں
مٹتے ہوئے فوٹو کے اندر
سرخ سنہرے گوٹے کی
رنگین ستاروں والی جو
ریشم کی ساڑھی ہوتی ہے
ایک ابھاگن بڑھیا کو
وہ جان سے پیاری ہوتی ہے
نینا عادل کی وہ نظم، جس میں وہ پلومیریا کا ایک پھول ہونے کی خواہش کرتی ہے، کچھ یوں کرتی ہے
کاش میں پلومیریا ہوتی
جس کی تخلیق کا واحد مقصد
کائنات کے حسن میں اضافہ کرنا
مسرت باٹنا، فرحت اور تازگی بخشنا
اور ہوا کی ہتھیلی پر خوشبو کی نظم لکھ کر
رخصت ہو جانا ہوتا۔۔۔۔
یہ نظم پڑھتے ہوئے میں سوچ میں پڑ گیا؛ گو کہ ہم میں سے کچھ انسان زمینوں، پانیوں، فضاؤں اور ذہنوں کو کاٹنے والے سازشیوں کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتے ہوں گے لیکن نینا! آپ تو اس قبیلے سے ہرگز نہیں ہو، آپ تو اس قبیلے سے ہو جس کا ایک قد آور فرد مال روڈ پر کٹنے والے درختوں کو دیکھ کر دھاڑیں مارتے ہوئے رو پڑا تھا، جو پھولوں کے بیل کی آواز بن کر نوحہ خواں ہوا تھا کہ کہ وہ بیل، یا وہ خود یا آپ کی طرح کے اس جیسے حساس دلوں والے روز روز کب آتے ہیں، جانے والوں سے بس ایک نگاہ کی بھیک سے زیادہ کیا مانگتے ہیں۔ نہیں نینا نہیں۔۔ آپ پلومیریا ہی نہیں، اس سے کہیں بڑھ کر ہو ۔ آپ تو اہلِ نظر کے اس قبیلے سے ہو جس کے لوگوں کو پسِ خوشبوئے گل بھی مرگِ گل کا منظر نظر آتا ہے۔
خوبصورت منظر کشی ہو کہ لطیف جذبات کا فنکارانہ اظہار، بہار کے حسن کا بیان ہو کہ خزاں کی مرگ آور واردات کا نوحہ، کسی ماں کے دل کی حالت کا بیان ہو کہ بازار سے گزرتے ایک انسان کی سرسری سوچ کی قلمبندی۔۔۔۔۔ نینا ہر کینوس میں منفرد رنگ بھرتے ہوئے ایک منجھے ہوئے آرٹسٹ کے طور پر سامنے آتی ہے، خوبصورت، پر اعتماد اور باوقار۔ آزاد نظم میں دریاؤں کی سی روانیوں کو برقرار رکھتی، نثری نظم میں خیال کو اپنی کامل شکل میں موثر تر طور پر قاری کی روح کی گہرائیوں تک پہنچاتی، اور غزل جیسی شاطر صنف کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی۔ نینا کو پڑھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس نوجوان سی الہڑ شاعرہ کے اندر ایک بہت بوڑھی روح موجود ہے جس کے شعور اور وجدان کے پیچھے صرف تخلیقی قوت ہی نہیں بلکہ ایک بہت صاحب ِ مطالعہ دانشور کی فکری بلوغت بھی موجود ہے۔
شعر و شاعری کے اس ربع صدی کے سفر میں کسی دوسرے شاعر کو پڑھتے ہوئے ایسا احساس بہت خال خال ہی ہوا کہ شاید یہ شاعر بھی وہ سب کچھ محسوس کرتا ہے جو میں کرتا ہوں، شاید یہ شاعر بھی کرب کے اسی نشے کا عادی ہے جس افیون کو پیتے پیتے میرا لڑکپن، جوانی اور اب باقی عمر بھی گزرنے کو ہے۔ نینا عادل انہی چند شعراء میں سے ہے جس کو پڑھتے ہوئے بارہا خیال آتا ہے کہ ارے ۔۔۔ یہ شعر تو مجھے کہنا تھا، یہ نظم تو میرے لاشعور میں پل رہی تھی ۔۔ یہ خیال تو میری ملکیت ہونا تھا ۔۔۔
مجھے شاعری میں موجود لایعنی تلازمات، ان دیکھی فارسی تراکیب یا بےہنگم سوچوں کا بےترتیب اظہار کبھی پسند نہیں رہا، میرے نزدیک شاعری وہی ہے جو قاری کی سوچ کو اس کے خول سے نکلنے پر مجبور کر دے، اس کے سوالات کے جوابات نہ دے بلکہ اسے صرف ایک سمت کی طرف گامزن کر دے، اس کے لئے کسی نئی جہت کے در وا کر دے، اسے سوچنے پر مجبور کر دے۔ جس شاعری کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہو کہ شاعر نے اس پر بہت محنت کی ہے، میرے نزدیک شاعری کہلانے کے یا پڑھنے کے قابل ہی نہیں۔ مجھے نینا کی کسی غزل یا کسی بھی نظم کو پڑھتے ہوئے ایسا احساس قریب سے چھو کر بھی نہیں گزرا، اس کے مصرعوں کا بےساختہ پن، اس کے خیالات کا والہانہ پن اور اس کے اظہار کی مضبوطی ان کئی چیزوں میں سے چند ایک ہیں جنہوں نے مجھے اس پر کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ میں اپنے آپ کو نقاد ہرگز نہیں سمجھتا، نینا کی شاعری پر منجھے ہوئے نقاد حضرات ضرور کام کریں گے، اس شاعرہ کو نظر انداز کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہو سکتا، میری ان چند سطور کو ایک حساس روح کا ایک اور حساس روح کے لئے خراج سمجھا جائے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
رتھ پر آتی اس شہزادی کی آمد کے اس منظر کو دیکھتے برس بیتے ، وہ جس والہانہ پن اور طمطراق سے سامنے آتی ہے اسی شان و شوکت سے نظروں کے سامنے اپنے چاہنے والوں کو کبھی پیاسا، کبھی خوش اور کبھی غمگین لیکن بہر طور سوچ میں غلطاں چھوڑ جاتی ہے۔
یاور ماجد