نینا عادل کی شاعری پڑھتے ہوئے مجھے ستیہ جیت رے کی شہرہ¿ آفاق فِلم پاتھیر پنچالی کا وہ
سین یاد آجاتا ہے جس میں سرکنڈوں کی جھاڑی میں چھپے ہوئے دو بچے دور سے آتی ہوئی ریل
گاڑی کی آواز سنتے ہیں ۔ جیسے جیسے ریلوے لائن پر ریل قریب آتی جاتی ہے ، سرکنڈوں کی
جھاڑیاں آہستہ آہستہ ہلنے لگتی ہیں ۔
نینا عادل کے شبد بھی اُن سرکنڈوں کی سرسراہٹ کی طرح ہیں جو اپنے معنی اور اپنے معنی سے
زیادہ اپنے بھاو¿ ((sense کے ©©”دباو¿“ سے زندہ ہو کر سرسرانے لگتے ہیں ۔ یہ عجیب و
غریب شاعری ہے ۔ معنی کی سطح پر اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ویسے بھی ” معنی “بڑے میکانکی
ہوا کرتے ہیں اور ہر کیفت کو اُس کے اسرار سے خالی کرکے اُسے ایک عامیانہ سی ٹھونس شکل
دینے کی سازش میں تیار رہتے ہیں ۔ چاہے وہ معنی کی مختلف جہات ہوں یا معنی آفرینی کا گھسا پٹا
محاورہ۔ یہ شاعری اپنے بھاو¿ یعنی sense کے ذریعہ ہماری دنیا میں داخل ہوتی ہے (مجھے بھاو¿
کا کوئی اردو متبادل (احساس) بھی نہیں مِلا) بھاو¿ وہاں نہیں ہوتا جہاں جملہ ختم ہوتا ہے یا جہاں
مصرع ختم ہوتا ہے ۔ وہاں تو معنی یعنی ارتھ ہوتا ہے جو یا تو فوراً سمجھ میں آجاتا ہے یا لسانی
قلابازیوں کے ذریعے کچھ دیر بعد سمجھ میں آتا ہے ۔ بھاو¿ اُن خالی جگہوں میں ہوتا ہے جو ایک
جملے سے دوسرے جملے ، ایک مکالمے سے دوسرے مکالمے ، ایک بیان سے دوسرے بیان یا
شاعری میں ایک سطر سے دوسری سطر کے درمیان واقع ہوتی ہیں ۔ بھاو¿ اُس سطر کی لمبائی کے
برابر کی دُروی طے کرکے آتا ے اور اُس بظاہر نادیدہ خالی جگہ پر تھرتھرانے لگتا ہے ۔ ندی
کنارے اُگے ہوئے سرکنڈوں کی مانند جس کی تھرتھراہٹ سے یہ محسوس کیا جا سکتا ے کہ ندی میں
پانی کا بہاو ¿ کتنا ہے ۔ اس لیے یہ شاعری ہمیں ہمارے مکمل حواس کے ساتھ متاثر کرتی ہے یا
صدمہ پہنچاتی ہے ۔ بڑی شاعری کا کام متاثر کرنے سے ذیادہ صدمہ پہنچانے کا ہوتا ہے ۔ مگر
صِرف یہی نہیں ، میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ شاعری ہمارے اندر ایک نئے آلہ ¿ حواس کو بھی
پیدا کرتی ہے ۔ ہمارے وجود میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہمارے وجود میں داخل ہونے کے لیے ،
یہی اس کا چور دروازہ ہے جس کا علم ہمیں بہت بعد میں ہوتا ہے ۔ نینا عادل کو یہ سب کرنے کے
لیے نہ تو اردو شاعری کی روایت سے انحراف کرنا پڑا اور ہ ہی لسانی توڑ پھوڑ کا سہارا لینا پڑا ۔
یہ کرشمہ ان کے ”شبدو ں“ نے اپنے انتخاب اور ترتیب کے ذریعے کر دکھایا ہے۔ یہ ”شبد “ زندہ
الفاظ ہیں ۔ یہ صرف سنائی نہیں دیتے ، یہ دکھائی بھی دیتے ہیں ۔ یہ اُن کی روح کی زبان کی لکنت
میں چھپے ہوئے ، تڑپتے ہوئے ، شدت سے بھرے ہوئے الفاظ ہیں جو ایک کاروباری دنیا کی زنان
کی دنیاوی قواعد کے مُردہ سانچوں میں فوراً اپنے شدید طور پر زندہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔
قواعد کے ان مُردہ سانچوں میں ، زندہ رہنا، کپکپانا، تھرتھرانا، جل جانا اور بُجھ جانا اِن کا مقد ر
ٹھہرا۔
یہ شاعری بڑی سچی اور زندہ شاعری ہے ۔ یہ کسی شعوری کاوش یا صناعی سے ذریعے وجود
میں نہیں آئی ہے ۔ اِس کا ماخذ نینا عادل کی روح کی دبیز اُداسی اور ایمان دارانہ افسردگی ہے ۔ یہی
افسردگی اُن کے ایک ایک شبد کو ایک ایمان دارنہ ”ہندسے “ کی طرح شفاف بناتی ہے اور سچا بھی
( میں نے اپنے افسانے میں غالباًلکھا تھا کہ لفظ کی انتہا یہ ہے کہ وہ ”ہندسے “ میں بدل جائے)
حالاں کہ مجھے علم ہے کہ ”لفظ“ کی ابہامی کیفیت کو شاعری میں قابل قدر نظرو ں سے دیکھا
جاتا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں ”لفظ“ یعنی ”شبد“ کو اتنا ایمان دار ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اپنے
چاروں طرف چھائی ہوئی ابہام کی دھند کے باوجود ریا کاری سے بچ سکے تاکہ منافقت کو جھوٹ
اور نفرت کو ایمان داری ، سچائی اور محبت سے بالکل الگ پہچانا جا سکے ۔ او کے بعد ہی میں ابہام
، علامت سازی اور استعاراتی نظام جیسے شعری اوصاف یا لوازمات کا خیر مقدم کر سکتا ہوں ۔
مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ نینا عادل کی شاعر ی میں کوئی اسرار نہیں ہے ۔ اسرار اور ابہام میں
فرق ہوتا ہے ۔ اسرار (رہسیہ) ایک پاکیزہ اورر روحانی عنصر کا نام ہے ۔ وہ ایک ناقابل فہم فاصلے
کا نام ہے ۔ اسرار انسانی وجود اور کائنات کے درمیان ایک کھائی کا نام ہے ۔ اِس فاصلے کو طے
نہیں کیا جاسکتا نہ ہی اُسے جانا جا سکتا ۔ اسرار تک پہنچنے کے لیے ”اسرار“ جیسا ہی ہوجانا پڑتا
ہے۔برخلاف اس کے ابہام محض لسانی کرشمہ سازیوں سے اور معنی آفرینی کے امکانات سے پیدا
ہوتا ہے ۔ وہ ”شبدسے شبد“ تک کا ہی سفر طے کرتا ہے جب کہ اسرار ”شبد سے نیشبد“ تک کا سفر
طے کرتے ہوئے زبان کی دنیا سے ہی ماورا ہوجاتا ہے ۔
موسیقی بھی ایک اسرار ہے اورر خدا بھی ایک اسرار ۔ اسی لیے ہندو مذہب کے فلسفے میں
موسیقی کے ذریعے ایشور کی ذات میں ضم ہوجانے کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ ہر موسیقی آہستہ آہستہ ایک
سناٹے کی طرف بڑھتی ہے ۔ ہر گیت اور ہر راگ خاموشی کے اسرار تک پہنچنے کی ایک کاوِش
ہے اور یہ کاوِش بجائے خود ایک اسرار اور ایک ”بھید“ کے سِوا کچھ نہیں ۔
یہاں ہمیں اس نکتے کی طرف بھی توجہ مبذول کرنی چاہیے کہ ابھی تک ہمارے قدیم کلاسیکل
سنگیت میں کھڑی بولی کا دخل نہیں ہے ۔ برج بھاشا یا بولیوں سے تو سنگیت بنا ہے مگر کھڑی بولی
سے نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اگر مستقبل میں کسی سنگیت کار کو یہ کام کرنا پڑے تو اُسے نینا عادل
کی شاعری کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ۔ سنگیت یا موسیقی شبدوں سے نہیں بلکہ اس کے ”تلفظ “
اور آواز وں کے حاشیے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور یہ ادائیگی ہی شبد سے نیشبد تک کا سفر طے کرتے
ہوئے موسیقی میں اپنی قلب ماہیت کرتے ہوئے ”خاموشی “ کے اسرار میں بدل جاتی ہے ۔ نینا عادل
کی نظم کا ایک ایک ”شبد“ اِس حوالے سے بہت اہم ہے جس کی ادائیگی اُس پُر اسرار خاموشی کی
طرف بڑھتا ہوا قدم ہے جسے بُدھا نے مَون (خاموش رہنا ) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ اِس مقام پر نینا
عادل کے یہاں وجود کی اُس نا قابل تشریح اُداسی کے آثار پیدا ہوتے نظر آتے ہیں جو کہ بُدھا کے
”دکھ“ سے ایک رشتہ بناتے ہوئے کبھی نظر آتے ہیں ، کبھی اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے میں نے
کہا تھا کہ نینا عادل کی شاعری کھڑی بولی کا سنگیت ہے ۔
مگر یہ آسان کام نہیں ہے ۔ یہ دلدل میں چپوچلانے جیسا ہے ۔ اپنے وجود کی دلدل میں چپو چلانا۔
کبھی اُس میں سر سے لے کر پاو¿ں تک دھنس جانا اور کبھی اس کالی دلدل کی سطح پر اُبھر آنا۔ یہ
ناقابل یقین ہے ۔ایک اور امر باربار میری توجہ کھینچتا ہے اور وہ یہ کہ آخر نینا عادل نے اپنی کتاب
کا عنوان ”شبد“ ہی کیوں رکھا؟ وہ آسانی سے اس کا اُردو متبادل ”لفظ“رکھ سکتیں تھیں ۔ میرے خیال
میں اس کی وجہ یہ ہے کہ نیناعادل اس نکتے سے بخوبی واقف ہیں کہ ”شبد“ میں ایک روحانی اور
مابعد الطبیعیاتی نظام پوشیدہ ہے جب کہ اس کا اردو متبادل ”لفظ“ اِن اوصاف سے تقریباًخالی ہے ۔ قدیم
ہندوستانی فلسفے میں ”شبد“کی اس نوعیت پر ایک طویل بحث موجود ہے ۔
”شبد“اور اُس کی اِس مابعد الطبیعیات سے مل کر نینا عادل کی شاعری میں ایک ایسا انوکھا تماشا
رچایا ہے جس میں صرف ایک ہی کردار ہے ۔ اور و ہ کردار ہے ”سچ“کا ۔ مگر یہ ”سچ “ بار بار
ایک الگ مکھوٹا لگا کر آتا ہے ۔ وہ اپنا اصل چہرہ ہمیں کبھی نہیں دکھاتا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے
جیسے کہ ”سچ“ کی کوئی شکل سی بن رہی ہے مگر پھر وہ دھندلی ہوجاتی ہے یا ہمارے اور اُس کے
درمیان ایک بخارزدہ دھند آکر بیٹھ جاتی ہے۔ شاعر کا المیہ بھی یہی ہےاور اُس کے ہونے کا جواز
بھی یہی کہ اگر اُس کے “سچ“یا حقیقت مطلق کے درمیان یہ دُھند نہ ہوتو وہ صوفی ، سنت ، رِشی
مُنی کچھ بھی ہوکستا ہے مگر شاعر یا فن کار نہیں ہو سکتا۔اُس کی داخلی تخلیقیت کا جبر اسے یہ
فرصت فراہم ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اِس دھند کو اِس بُخار کو اور اِس جالے کو درمیان سے ہٹاسکے۔
یہ ”سچ“ کا اسرار ہے اور یہی زندگی کا بھی ۔ جس طرح ایک سیلاب زدہ ندی کی دہشت اور اُس
کے اسرار کو ندی کے پل سے لٹک کر ہی محسوس کیا جاسکتاہے ۔ ندی میں ڈوب کر نہیں ، اُسی
طرح زندگی اور موت دونون سے تھوڑی سی دُوری ایک ذرا سافاصلہ ضروری ہے اور یہی اِس
شاعری میں موجود ہے ۔ ایک دُوری ایک خالی جگہ جہاں ایک ایک سطر کا بھاو¿ موجود ہے یا پھر
ابھاو¿۔ میں ایک بار پھر کہوں کہ بھاو¿ کا مطلب یہاں جذبہ احساس اور خیال نہیں ہے ۔ کسی ”شے “
کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ٹھوس حیثیت کے حامل ہیں اور اِسی مقام سے وجودیت کے سچے افسردہ ماخذ
پھوٹتے ہیں جنھوں نے اس تمام شاعری کو سیراب کر کے رکھ دیا ہے ۔
میں نے دانستہ طور پر یہاں نینا عادل کی شاعری کے نمونے یا مثالیں پیش نہیں کی ہیں کیوں کہ
میں اِسے کارِ رائیگاں سمجھتا ہوں ۔ مجھے معلوم ہے کہ چند مثالیں پیش کرکے جو کچھ ثابت کیا
جاسکتاہے ، دوسری مثالیں دے کر اس کے قطعاً الٹ بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ یہ پیشہ ور نقادوں کی
شعبدہ بازیاں ہیں جن سے میں الگ اور لاتعلق رہنا چاہتا ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ”کُل “ سے
تو ”جُز “ کو سمجھا جا سکتا ہے مگر جُز سے ”کُل “ کو ہرگز نہیں ۔ نہ تو فلسفے میں نہ سائنس میں
نہ مذہب میں اور ادب یا شاعری میں تو بالکل بھی نہیں ۔ دوسرے یہ کہ میری یہ الٹی سیدھی تحریر
اُن کی کتاب میں شامل ہے اس لیے مثالوں سے اور بھی گریز ضروری ہے ۔ رہی بات نینا عادل کے
شعری ڈکشن کی ، اُن کی استعارہ سازی کی ، اُن کی علام نگاری کی ، زبا ن کی سادگی اور بے
ساختگی کی اور دوجے قابل تعریف اہم شعری لوازمات کی تو اس پر میں اس لیے گفتگو نہیں کرنا
چاہا کہ ایک تو میں اس کے اہل نہیں ہوں دوسرے یہ کہ یہ تمام خصوصیات تو اچھی شاعری بلکہ
اچھی سے بھی کم شاعری کا حصّہ ہوا کرتی ہیں ۔ اِن باتوں کے بارے میں باقاعدہ تربیت یافتہ ناقد یا
تبصرہ نگار مجھ سے بہت بہتر لکھ سکتا ہے ۔ مگر اِتنا تو ضرور کہنا چاہیے کہ یہ ایک غیر معمولی
شاعری ہے ۔ روایتی انداز میں تشریح کرکے اس شاعری کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ایک غیر
جانب دار سرجن کی طرح دستانے پہن کر اِس کا پوست مارٹم نہیں کر سکتے ۔ (تشریح یا Analysis
اور کیا ہوتی ہے؟)
” شبد “کی ہر نظم اور ہر سطر ایک زخم ہے ۔ کچھ زخموں پر کھرنڈ جم گئے ہیں کچھ کے نشان
باقی ہیں اور کچھ زخم ایسے ہیں جن سے نیلا خون رِستا ہے۔ میرے ہاتھوں میں سفید دستانے نہیں ہیں
۔ میں لکھتے وقت اِن زخمون کو اپنے ہاتھوں پر اگتے ہوئے محسوس کرتا ہوں ۔ یہ نینا عادل کی
شاعری کے ساتھ اگر انصاف نہیں تو انصاف کرنے کی ایک کمزور سی کوشش ضرور ہے ۔ اگرچہ
یہ میری غلط فہمی یا خام خیالی بھی ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ ”شبد“نے اپنے اسرار کی طرف
لے جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہو۔
جب میں یہ کتاب پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں ایک پل کو بھی یہ بات نہ آئی کہ اسے ایک عورت
نے لکھا ہے ۔ یہ حیران کن حد تک کسی فیشن ایبل رجحان سے خالی شاعری ہے ۔ یہاں نہ تانیثیت کی
نام نہاد دانشورانہ جہت نظر آتی ہے اور نہ ہی کچی پکّی رومان زدگی میں لپٹی ہوئی نسوانی بغاور۔
یہاں جو بھی ہورہاہے وہ صرف اور صرف ”انسانی ذات“کی سطح پر ہو رہا ہے۔ اپنی جنس کی
حیاتیاتی حدود کی مجبوریوں میں رہ کر بھی ، محض اور محض”انسانی ذات“ کی سطح پر۔ ایسی
شاعری کے لیے وجدان کی آفاقیت جتنی ضروری ہوتی ہے اتنی ہی ذہانت بھی اور سلیقہ بھی ۔ نینا
عادل کے یہاں جو غیر معمولی ذہانت ہے وہ ان کے وجدان کو اور زیادہ چمکا دیتی ہے اور ان کی ہر
سطر ایک ایسی روشنی میں نہائی ہوئی نظر آتی ہے جو کائنات اور ذات کے بارے میں ، اُن کے اپنے
انوکھے اور غیر معمولی وژن سے پیدا ہوتی ہے۔
اُن کی شاعری میں ایک چیز ایسی ہے جو پانی کی طرح بہہ رہی ہے ۔ وہ اُن کی اداسی ہے پاکیزہ
نیلے پانی جیسی اُداسی ۔ پانی کو بہنا ہوتا ہے ۔ پانی اگر رُک جائے تو سڑ جاتا ہے ۔ بدبو اور بساندھ
دینے لگتا ہے ۔ پانی ہمیشہ اپنے حصّے کی زمین تلاش کر لیتا ہے ۔ اُسے بہنا ہوتاہے ۔ ایک کھیل
کھیلنا ہوتا ہے ۔ ایک تماشا دِکھانا ہوتا ہے ۔ دنیا کا نقشہ پانی کی مختلف دھاروں اورر لکیروں سے
بھرا پڑا ہے وہ کس طرح وہان رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
”شبد“ کی نظموں اور غزلوں دونوں میں ، پوری کتاب کے صفحات پر یہ اداسی پانی کی طرح بہہ
رہی ہے ۔ کوئی اس دائمی اور مستقل اداسی کو مٹا نہیں سکے گا ۔ خود نینا عادل بھی نہیں ۔ پانی
ساری دنیا کو غرق کر سکتاہے مگر خود اپنے آپ کو نہیں ۔ نینا عادل اس بہتے پانی ، اس رینگتی
ہوئی اداسی کا پیچھا کرتی ہیں ۔ وہ اس بہاو¿ کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہیں اکہ اپنے آپ کو وہاں دُور بہا
ہوا دیکھ سکیں ۔ وہ اسے اتنا آگے نہیں نکلنے دیتیں کہ یہ اُداسی اُن کی نظروں سے اوجھل ہوجائے۔
میں اس طرح کے کلیشے یا فرسودہ کلمات استعمال نہیں کرنا چاہتا کہ کہوں کہ نینا عادل کی شاعری
میں بڑی تہہ داریت ہے یا بڑی گہرائی اور گیرائی ہے ۔ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ سب ہوتے ہوئے بھی
بہتوں کی شاعری اور اُن کی زندگی بھی (زندگی شاعری سے الگ نہیں ) ایک سیدھی چکنی سڑک
کی طرح ہوتی ہے جس پر چلتے ہوئے آپ کا چہرہ اور آپ کی پیٹھ سب دیکھتے رہتے ہیں ۔ اتنا
Exposureاچھا نہیں ۔
نینا عادل کی زندگی یعنی شاعری سیدھی چکنی سڑک کی طرح نہیں ہے اُس میں چھوٹے چھوٹے
گڈھے ہیں جن میں مٹیالا پانی بھرا ہواہے ۔ جہاں وہ آرام سے چھپی رہتی ہیں اور کسی کو پتہ نہیں
چلتا ۔ اصل انسان یہیں تو رہتا ہے۔ پوشیدہ تِلوں میں ، گڈھوں میں ، پرانے زخموں کے نشانوں میں ۔
ہر زخم دوسرے کو اپنی کہانی سناتا ہے۔ پھر ایک داستان کو درمیان میں روکتے ہوئے کسی دوسری
داستان کے کالے جزیروں کی طرف برھ جاتاہے۔
مگر سب سے بڑا کرشمہ جو یہاں نمودار ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ نینا عادل کی شاعری ”شبد سے
نیشبد“ کی طرف سفر کرتے کرتے ”ایمان دارہندسوں“ کی طرح ”سچ“کی طرف سے ”جھوٹ“کے
خلاف مقدمے بھی دائر کرتی رہتی ہے۔ جھوٹ کے خلاف ایک بغاوت ، ایک Rebelمگر یہ بغاوت
”کامیو“کے Outsider سے نہ ہوکر ،اُس سے بہت پہلے دوستوو¿فسکی کے Undergroundملتی
جلتی ہے جو اپنی اندرونی ذات Inner selfکے بوجھ سے دبا ہونے کے باوجود حقیقت مطلق یا سچ
کے دباو¿ کو بھی اپنے کندھوں پر محسوس کرتا ہے۔
یقینامجھے علم ہے کہ نینا عادل کی اس کتاب کو ایک دوسری طرح سے بھی پڑھا جا سکتاہے۔ اُن
کی شاعری کی دوسری طرح سے بھی تاویلات پیش کی جاسکتی ہیں ۔ ایسے بہت سے زاویے ہوں
گے جن کو میری جالا لگی آنکھیں دیکھنے سے مجبور ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو میںنے کہا
ہے اُسے بالکل ہی رد کر دیا جائے مگر مجھے اِن باتوں کی کبھی کوئی پروا نہیں رہی ۔میں بس اتنا
جانتا ہوں کہ میں نے ”شبد سے نیشبد“ کے بیکراں سناٹے میں اکیلا ہو کر یہ سطریں لکھی ہیں ۔ اس
اکیلے پن کے دُکھ اور مسرت کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں ۔ اس دُکھ اورر مسر کے شریک کو میں
خوش آمدید کہتاہوں
خالدجاوید
2018