محترم ابوالکلام قاسمی صاحب ، سلام علیکم امروز کا تازہ شمارہ عنایت کرنے کا شکریہ۔ بلاشبہ اس کے مطالعے سے مجھے یک گونہ مسرت اور تسکین ہوئی ۔ پرچے کے آغاز میں آپ کی دیانت دارانہ اور پرخلوص معروضات جہاں باذوق قاری کی توقعات میں اضافہ کرتی ہیں وہیں شخصی فرعونیت، کبر و رعونت، اقربا پروری، گروہ بندیوں اور پی آر کے گورکھ دھندے سے بے زار اور بے نیاز تخلیقی ذہنوں کے لیے نو بہ نو کشادہ اورستھرے دریچے بھی وا کرتی ہے۔ اچھے ادب کے فروغ میں خود منفی ادبی رویے جس طرح حائل رہے ہیں اور جس طرح کے مسائل کو جنم دیتے رہے ہیں ان کا کسی حد تک تدارک ایسے معیاری اور سنجیدہ ادبی پرچوں کی اشاعت اور قبولیت سے ہی ممکن ہے ۔ اردو شعر و ادب سے وابستہ شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو گا جو عزیزِ جہاں محترم شمس الرحمٰن فاروقی کے علم و فضل سے بالواسطہ یا بلا واسطہ مستفیض نہ ہوا ہو۔ تضمین اللغات سے اقتباس ( تقطیع ب) امروز کا بہت وقیع، دلچسپ اور معلومات افزاء حصہ ہے۔ اس میں شامل ایک لفظ بڑاڑن نے آج سے پچیس چھبیس سال قبل کی ایک یاد تازہ کردی جب پیر الہی بخش کالونی، کراچی میں ہماری نانی کے محلے میں پوپلے منہ والی ایک ضعیفہ، جنہیں ہم بڑاڑن بڑھیا کہتے تھے، رہا کرتی تھیں۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ وہ، اس لفظ کے جو معنی ہمیں فاروقی صاحب نے بتائے ہیں، اس کے مطابق بہت بولتی تھیں کہ نہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ ہمارے نانا ہر کسی کو اس کی شخصیت اور اوصاف کے مطابق کسی تاریخی، علمی ادبی، دیومالائی یا فلمی شخصیت یاکردار کا نام دے دیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کسی زمانے میں” بہت بولنے والی بڑھیا” کو یہ نام انہوں نے ہی دیا ہو۔ تضمین اللغات کی جلد اشاعت اور فاروقی صاحب کی صحت و تندرستی کے لیے دعاگو ہوں۔ چودھری محمد نعیم نے بےحد خوش سلیقگی اور مہارت سے محمدی بیگم کے بیش بہا کام کے پھیلاؤ کو چند صفحات میں سمیٹا ہے۔ ارجمند آرا کے رواں تراجم کی سلاست اور زبان و بیان پر ان کی دسترس بجا طور پر تحسین و توصیف کی مستحق ہے ۔ محمدی بیگم کی شعری و نثری تخلیقات کے روشن گوشوں پر نظرجاتی ہے تو سوچتی ہوں صدیوں کے اس سفرمیں آج کی اعلٰیٰ تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار مشرقی عورت روایتی سماجی جکڑبندیوں سے خود کو کس حد تک آزاد کرسکی ہے ۔ کل تک میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہوتے تھے جن کے اشتراک کے بغیر گھرداری کی گاڑی کا چلنا محال تھا، مگر آج معیشت کی گاڑی کا چلنا بھی ان دونوں کی شراکت کے بغیر ممکن نہیں رہا۔ اس دوہرے بوجھ کو ڈھوتے ہوئے بھی جہاں تک امورخانہ داری سمیت دیگر ذمہ داریوں کا تعلق ہے، وہ اب بھی وہیں کھڑی ہے جہاں اس کی نانی، دادی اورپر دادی کھڑی تھی۔ آج بھی منہ پر لگے تالے، سالن میں نمک کی مقدار اور روٹی کی گولائی سماج میں اس کی قدرو قیمت کا تعین کرتی ہے. سگھڑ پن اور پھوہڑ پن کے ان مفروضوں کی بنیاد پر آج بھی وہ ترازو میں رکھی کوئی شے دکھائی دیتی ہے- آج بھی ہمارے اطراف فرما نبرداری، خاندانی شرافت اور حسب نسب کے نام پر اپنی آرزوؤں کا گلا گھوٹنے والی صفیہ بیگم اور شریف بیٹی جیسے کردار جا بجا بکھرے پڑے ہیں، اوراس تناظرمیں محمدی بیگم کی تخلیقات آج بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بلا شبہ انہوں نے جن مسائل کی نشاندہی کی تھی وہ اب بھی توجہ طلب ہیں ۔ محمد عمرمیمن صاحب کی گراں قدر ادبی خدمات کو بیدار بخت صاحب نے نہایت عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ محمد عمر صاحب کے تراجم میں جو تخلیقی چاشنی گھلی ہوتی ہے اس کا اندازہ پہلی بار مجھے اورحاں پامک کے وائٹ کیسل کا اردو ترجمہ سفید قلعہ پڑھ کر ہواتھا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ان کا افسانہ تاریک گلی جسے بیدار بخت صاحب نے اردو کا بہترین افسانہ قرار دیا ہے، امروز کے آئندہ کسی شمارے میں شامل کیا جائے۔ الوک رائے صاحب کا انٹرویو تو خاصے کی چیز ہے مگر اسے انٹرویو کی جگہ مذاکرہ کہا جائے تو کیا مناسب نہ ہوگا کیونکہ شاہد صاحب کے اپنے خیالات الوک رائے کے خیالات سے زیادہ نہیں تو شاید کم بھی نہیں۔ الوک رائے کی انگریزی کتاب “ہندی نیشنل ازم” پڑھے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے مگر لگتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل زیادہ سنجیدہ یا زیادہ مضحکہ خیز صورتِ حال اختیار کر تے جا رہےہیں۔ انٹرویو لینے والے صاحبانِ علم اور الوک رائے صاحب ہندی اور اردو والوں کے اپنی زبانوں کی اشرافیت کے جھوٹے تصورات پر بے لاگ تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ کہ ہمارے ہاں اہلِ اردو ہندی الاصل الفاظ کے استعمال پر معترض دکھائی دیتے ہیں اور وہاں سسنسکرت زدہ ہندی کو عربی و فارسی اثرات سے پاک کرنے کے لیے ایک مشترکہ تہذیب و ثقافت کی جڑیں نوچ کر پھینکنے کی کوشش کی جاتی ہے، جب کہ اور اندرونی خانہ جنگی سے نبردآزما اس زبان (یا یک جان دو قالب دو زبانوں ) کو ہر دو طرف سے بیرونی یلغار کا بھی سامنا ہے۔ الوک رائے صاحب نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا تھا “آئی ڈڈ ناٹ چوز دا سبجیکٹ، اٹ چوز می۔” میں سمجھتی ہوں اس مشترکہ ادبی و ثقافتی تہذیب اور سرمائے سے محبت کرنے والا ہرفرد اس موضوع کے حوالے سے ایسے ہی احساسات رکھتا ہو گا۔ سورج کا ساتواں گھوڑا میں دھرم ویر بھارتی کی بامحاورہ زبان اور ارجمند آرا کے ترجمے کی خوش سلیقگی نے لطف دیا ..بھارتی کمال چابک دستی سے ہر کہانی بیان کرنے کے فورا بعد قاری کو مانک ملا کے سامعین کی مدد سے اپنی مرضی کے مقام پر کھینچ لاتے ہیں . فرض کیجیے کہ قاری جمنا اور مانک کی بے جوڑ اور بےرس ملاقات سے بور ہونے لگا ہے تو مانک ملا کے سامعین یا دوست اس میں ایسی دلچسپی ظاہر کریں گے اور ایسے ایسے نکتے بیان کریں گے کہ قاری بیچارہ گھوم پھر کر انہی کے رستے پر چلنے لگے گا۔ دوسرا افسانہ بھی عمدہ ہے اور آپ کا پیش کردہ شعری انتخاب بھی یقیناً بہت خوب ہے . امروز کے مطالعے سے سیکھنے، سمجھنے، سوچنےاور لطف اندوز ہونے کے جو مواقع میسر آئے ان کے لیے میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
نینا عادل
9 نومبر 2018