دس میں سے نو فوجی پیدائشی احمق ہوتے ہیں ‘ ۔ ایسا ۹۴ ۱۸ میں برنارڈشا اپنے شہرہ آفاق ڈرامے ‘ آرمز” اینڈ دا مین ‘ میں کہاہے۔ اس اینٹی رومینٹک کامیڈی پلے میں وہ یہ بھی کہتاہے کہ ’ عسکریت ….جب آپ طاقت ور ہوں تو بے رحمی سے حملہ کرنے ، اور جب آپ کمزور ہوں تو خود کو نقصان سے بچانے کا بزدلانہ فن ہے ‘ ۔ ایسی جرأت مندانہ باتیں وہی لوگ کر سکتے ہیں جو بجائے سوسائٹی سے ریڈی میڈ عقائد اور نظریات خیرات لینے کے، اپنی روشن خیالی اور فکری سرمائے سے معاشروں کے اجتماعی شعور کو بلند کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ سو یہ نوبل انعامہ یافتہ ڈرامہ نویس طاقت کے پیشے کی ذہنی غلامی سے ، اس پیشے کی نمائش اور مکر سے قلمی بغاوت کرتے ہوئے طنز و مزاح کے نوکیلے نشتروں سے ہمارے صدیوں پرانے رومانوی عقائد سے تراشے گئے بڑے بڑے بتوں کے تابناک چہرے بگاڑ تا نظر آتا ہے ۔
۱۸۵۸ میں، بلغاریہ اور سربیہ کی جنگ کے پس منظر میں، یہ ڈرامہ بلغاریہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں میجر پا وئل پتکوف اور کیتھرئن پتکوف کی اکلوتی اور حسین و جمیل بیٹی رائنا پتکوف کی خواب گاہ سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ سلیونتزاکی جنگ میں سربین فوج کی شکست کی خبر اور اپنے منگیترمیجر سرجیئس سارانوف کی غیر معمولی فتح پر مسرور، اور اسکی بہادری اور جرأت آمیز کارناموں سے مسحور،تعظیم اور تفاخر کے احساسات سے مغلوب اپنے بستر پر دراز ہے، جب کہ آسٹرین اور سرب افواج میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی ہیں۔ اسی شکت خوردہ فوج کا ایک سوئز جوان بلنت شلی جو کہ سرب فوج میں پیشہ ور سپاہی ہے بالکونی کے راستے خواب گاہ کی کھڑکی پھلانگ کر رائنا کے کمرے میں گھس آتا ہے اور اس پر پستول تان کر اسے شور نہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسی اثنا میں گھر کی ملازمہ لؤکا خوابگاہ کے دروازے پر دستک دے کر رائنا سے کہتی ہے کہ چند فوجیوں نے کسی کو بالکونی کے رستے گھر میں داخل ہوتے دیکھا ہے وہ گھر کی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔ سوئز فوجی گو کہ ہتھیار ڈالنے پر راضی ہو جاتا ہے مگر رائنا ممکنہ تصادم کے پیشِ نظر اور بلنت شلی کی زندگی بچانے کے خاطر اسے فوج سے چھپا رکھتی ہے ۔ فوجیوں کے جانے کے بعد جب وہ گھبراہٹ میں بلنت شلی کی پستول پر بیٹھ جاتی ہے تب اسے پتا چلتا ہے کہ پستول بھرا ہوا نہیں ہے ۔ بلنت شلی جو کہ تھکا ہوا ہے ، بھوکا ہے اور نروس بھی ہے، کچھ ہی دیر میں اپنی خوش دلی اور صاف گوئی سے رائنا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ وہ رائنا کو بتاتا ہے کہ وہ دورانِ جنگ پستول میں بلٹس کے بجائے چاکلیٹس رکھنا پسند کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی سپاہی بھی بخوشی اپنی جان میدانِ جنگ میں گنوانا نہیں چاہتا ۔ یہ انسان کی فطرت بھی ہے اور فوج کی تربیت بھی کہ وہ اپنا دفاع کرے۔ وہ کہتاہے ’ ہمارا فرض ہے کہ جتنا زیادہ جی سکتے ہیں جئیں ‘ ۔ برنارڈ شا کے غیررومانوی نظریات کا عکاس بلنت شلی غیر محسوس طریقے سے فوج کی شان و شوکت عظمت اورشجاعت کے حوالے سے رائنا کے رومانوی خیالات اور غیر حقیقی نظریات کو زمینی حقائق کے سامنے بے پردہ کر تا چلا جاتاہے ۔
دوسری طرف رائنا کا منگیتر میجر سرجئیس سارانوف بھی برنارڈ شا کے موقف کا بہترین ترجمان ہے، جس کی آنکھیں دوران جنگ نصیب ہونے والی تمام تر کامیابیوں اور کامرنیوں کے باوجود وطن پرستی ، بہادری ، شجاعت ، طاقت اور جرأت جیسے تفاخرآمیز احساسات کی قلعی کھلتی ہوئی دیکھ لیتی ہیں۔ وہ جنگ میں موقع پرستی ، ریاکاری ، فریب اور دکھاوے کے جذبات کو شرافت ، سچائی اور بہادری کے جذبات پر غالب دیکھ کر بد دل ہو جاتا ہے اور تمام تر اعزازت کو دھتکار کر فوج کے پیشے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتاہے۔ وہ ایک موقع پر میجر پیتکوف سے گفتگو کرتے ہوئے کہتاہے ’ دنیا اتنی معصوم جگہ نہیں ہے جتنا ہم سمجھا کرتے تھے‘ ۔ وہ نام و نمود ، بناوٹ اور نمائش سے کنارہ کرتے ہوئے ایک فوجی افسر کی حسین و جمیل بیٹی سے منگنی ختم کرکے ایک سادہ لوح گھریلو ملازمہ کو اپنا شریکِ سفر بنا لیتاہے ۔ رائنا جو کہ غیر محسوس طریقے سے بلنت شلی کی صداقت اور بے باکی سے روشن خیالی کی تعلیم لینے لگتی ہے اب اپنے دلیر منگیتر اور اپنی فوج کے جواں مرد سورما پر ناکام فوج کے مفرور سپاہی ’ چاکلیٹ کریم سولجر‘ کو ترجیح دیتی ہے ۔
برناڈ شا جیسا رومانویت دشمن اور حقیقت پسند دانشور طاقت کے پیشے کی اصلیت سے خوب واقف تھا۔ اسے احساس تھا کہ برطانوی فوج اپنے ہم وطنوں کے لیے بے شک جلیل القدر تھی، مگر دوسروں قوموں کے لیے یہی عظیم فوج دہشت گردوں کا ایک ٹولہ تھی۔ ہمارے اس کرّہِ خاکی پر عسکری طاقت کی روایت ازل سے جارحیّت ہی رہی ہے چاہے وہ سکندرِ اعظم کی غضب ناک سپاہ ہو، سلطنتِ عثمانیہ کے نا قابلِ شکست ینی چری ہوں، چنگیزخان کے خون خوار سپاہی ہوں یا جرمنی کی بے رحم نازی عساکر ، سب کا منشا اور مقاصد ایک جیسے رہے ہیں، یعنی اپنی زمینوں کے منہ خزانوں سے بھرنا، اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا، اپنے ذخیروں میں اضافہ کرنا اور دوسروں کی زمینوں کو اجاڑ دینا ، دوسروں کے کھیت جلا دینا ، مفتوحہ قوموں کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا ، بچوں کو قیدی بنانا ، عورتوں کی آبرو ریزی کرنا۔ طاقت کے پیشے کی یہ خو ازل سے ہے۔ اور بسا اوقات اس کھیل میں دشمن اپنے ہی ہم وطن ، ہم عقیدہ، ہم زبان اور ہم نسل لوگ ہوتے ہیں۔ یمن کی خانہ جنگی، شام کی خانہ جنگی اور افریقی ممالک جیسے کانگو اور صومالیہ کی خانہ جنگیاں اور ماضی قریب میں یورپ میں سربیا اور بوسنیا ہرتسو گووینا کی اندوہناک خانہ جنگوں کے علاوہ سقوط ِڈھاکہ اور کشمیر کی صورت حال تو ہم سب کے سامنے ہی ہے
ماضی ہو یا حال ہم اس تلخ حقیقت کی کڑواہٹ اپنے حلق میں بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔ چلیے سقوطِ ڈھاکہ کے حقائق سے اور فریب کاری کے اس کھیل میں پاکستانی فوج کے کردار سے نظر چراتے ہوئے ہم بھارتی فوج کی کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی مثال لے لیتے ہیں۔ ہم فلسطینی خواتین کو اٹھا لے جانے والی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں طاقت کے ناجائز استعمال کا حوالہ دے لیتے ہیں ، برہنہ لاشوں کے ساتھ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں کی جانے والی بے حرمتی کی لرزہ خیز تصاویر دیکھ لیتے ہیں، یا تاریخ کے اوراق الٹ کر میونخ انسٹیٹوٹ IFZکی پیش کردہ رپوٹ کا جائزہ لیے لیتے ہیں کہ کس طرح ۴۱۔ ۴۲ ۱۹ میں جرمن فوج نے غیر مسلّح اور نہتے روسی باشندوں کا بیہمانہ قتل کیا اور کس طرح موت کے منہ میں جاتے ہوئے انسانوں کو بے یارومدد گار چھوڑا۔ یوں تو ناگاساگی اور ہیروشیما میں جنم لینے والی اور مٹا دی جانے والی ان گنت داستانوں کی طرح تاریخ عالم کے گوشے گوشے میں سفّاک افواج کی طرف سے انسانیّت سوزی کی بے شمار مثالیں سامنے ہیں، اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ طاقت کے ناجائز استعمال کی کون کون سی خونریز رودادوں کا ذکر کیا جائے اور کن کو نظر انداز کیا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوسِ قزح کی ست رنگی کمان پر
موٹے موٹے بوٹوں والے چڑھ جاتے ہیں
آسمان پر دیوار اٹھاتے اور
بادلو ں کو دھکیلتے ہیں اپنے اپنے علاقوں کی طرف
تاکہ بارش صرف ان کی فصلوں پر برسنے کی پابند ہو
توپوں کا رخ موڑ کر ہوا کا رستہ روک دیتے ہیں
اور بندوق کے نشانے پر آنے والے ہر پرندے کو
وحشی آدم خوروں کی …
تہذیب یافتہ نسلو ں کی جانب اچھال دیتے ہیں
جن کے ڈی ، این ، اے میں ازل سے
آگ ، سانپ ، توپ اور بوٹ
ہر طاقت کی پوجا کرنے کی اندھی خو ہے
(نینا عادل)
طاقت کا پیشہ ظاہر داری ، کرّ و فر اور ریاکاری کی اندھی خو میں عدل کی دھجیاں تاریخ کس باب میں اڑاتا نظر نہیں آتا؟ جدید دور میں مسلّمہ بین الاقوامی نظریے کے مطابق فوج کاکام سرحدوں کی حفاظت ہے مگر کیا ساری دنیا کی افواج اپنی حدود میں رہتے ہوئے دیانت داری سے اپنا کام کرتی ہیں؟ بالعموم نہیں۔ مشرقی یورپ اور افغانستان میں دندناتی ہوئی سوویت افواج رہی ہوں یا ویت نام اور کوریا، لاؤس اور کمپوچیا میں تباہی پھیلاتی امریکی افواج، کویت پر چڑھائی کرتی عراقی افواج، سبھی اپنی حدود سے نکل کر، چاہے بہانہ کچھ بھی رہا ہو، اپنی طاقت کے زعم میں دوسروں کو سیدھی راہ پر لانے کے دعویدار رہے ہیں۔
ہاں، مگر فتنے اور فساد کی اس تاریخ میں قصور وارصرف طاقت کے یہ دیوتا ہی نہیں بلکہ انہیں سجدہ کرنے والی ہماری اندھی جبینیں بھی ہیں۔ طاقت کے بنا بقا کا تصّور محال سہی مگر ہماری بقا کا دارومدار دوسرے پیشوں پر بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ عسکری قوّت پر۔ وقت کے چہرے کو ضیا بخشنے والے محنت کش ہاتھ ،مریضوں کی تیمارداری کرنے والی نرس ، بچّوں کو تعلیم دینے والا استاد ، معیشت کی گاڑی چلانے والے لاکھوں کڑوڑوں افراد ، مزدور ، کلرک ، کسان ، قلم کار سب کے سب قومی اور انسانی عظمت کے پائدار ستون ہیں۔
بدقسمتی سے دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے اور بعض ملکوں میں بہت با اثر بھی، جو صرف اور صرف طاقت کے بل پر ہی سوچتا ہے۔ ان کی نظر میں طاقت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ عظیم مفکّر ابراہام ماسلو نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ اگر آپ کے پاس واحد دستیاب اوزار ایک ہتھوڑی ہی ہو تو آپ ہر مسئلے کو ایک کیل کی طرح دیکھنے لگتے ہیں۔ ہمارے اردگرد بھی اس سوچ کی کمی نہیں ایسے لوگوں کی جو ہر مسئلے کا حل بندوق کی نالی سے نکالنا چاہتے ہیں، حالانکہ بندوق کی نالی کے دخل نے دنیاکو سوائے لاقانونیت کے کچھ بھی نہیں دیا۔
اگر سوچ میں اعتدال ہو تو ہر پیشہ قابلِ احترام ہے ۔ مگر ہمارے کاشتکار اور دستکار ، ہمارے مزدور ہمارے ہیرو نہیں ۔ اس لیے کہ ہم ہنر اور لگن کی نہیں طاقت کی پوجا کرنے کے صدیوں سے عادی ہیں۔ کیوں کہ ہمارے رومانوی تصورات غیر حقیقی مفروضوں کا لبادہ اوڑھے ہمارے اجتماعی لاشعور میں ابدی طور پر کار فرما ہیں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طاقت کا وجود امن قائم رکھنے کے لیے لازم ہے۔ اندرونی اور بیرونی ہر طرح کے دشمنوں کے مقابلے کے لیے۔ مگر اس طاقت کو صرف مددگار ہونا چاہیے آقا نہیں۔ فیصلہ کرنے کا اختیار دانشمندوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے جن کی نظریں تاریخ کی روشنی میں ماضی حال اور مستقبل سب پر ہوں۔
ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسی فوج ہے جس کے ہوتے کسی کو ہماری سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں ہو سکتی، مگر ہمیں اتنی ہی ندامت بھی ہے کہ ہماری اس پشت پناہ نے بارہا ہماری پشت میں ہی خنجر گھونپا۔ ہمارا آئین بارہا تار تار ہوا اور بارہا مسخ ہوا۔ اور اس سے بڑی ندامت اس بات کی ہے کہ نام نہاد دانشوروں کا ایک طبقہ، اور ان کے ساتھ شامل عوام کا ایک نمایاں طبقہ اس لاقانونیت کا نہ صرف ہمیشہ خیر مقدم کرتا رہا، بلکہ ہر نازک موقعے پر اس کی دخل اندازی کا متمنّی بھی رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم طاقت کی پرورش ضرور کریں مگر اس کی پرستش سے بازجائیں
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے درمیان بھی برنارڈ شا جیسے بے باک دانشور پیدا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ کہ ہم بھی خود میں انگریز جیسا حوصلہ پیدا کریں، جیسا حوصلہ برنارڈ کو برداشت کرنے، سراہنے اور اسے قومی ہیرو بنانے کا انگریز میں تھا، جس نے برطانیہ عظمیٰ کے اس دور میں جب اسکا اپنی سفّاک فوج کے سبب آدھی دنیا پر قبضہ تھا، آرمز اینڈ دی مین جیسا ڈرامہ تحریر کیا، جس میں کھل کر فوج کی زیادتیوں کو بلا خوف و خطر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ اس برطانیہ میں کسی نے برنارڈ شا کو نہ غدّار کہا نہ ملک دشمن۔ شائد یہی وجہ ہے وہ آج بھی دنیا میں اپنا ایک مقام بنائے ہوئے ہیں کہ انہوں نے فکر کو بندوق کے تابع کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔