،
جب عمر بھر کی تھکن ماتھے کی سلوٹوں میں بدل جائے گی
اور میں لاٹھی ٹیک کر چلنے لگوں گی
تب دبے پاؤں میں اپنی ماں کے پیروں کے پاس آ کر لیٹ جاؤں گی
جب ڈاکٹرز میرے کھانے پینے پر پابندی لگا دیں گے
تب میں ان کچّے امرودوں کا ذائقہ چکھوں گی ! جو میں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر پڑوسیوں کے درختوں سے چرائے تھے
جب میری آنکھوں کے آگے روشنی کے سارے عکس دھندلا جائیں گے
تب میں پسِ دیوار چونٹیوں کے بلوں میں رکھا اناج دیکھوں گی
جب میری سماعت پر ضعیفی تالے ڈال دے گی
تب میں ان پرندوں کے گیت سنوں گی جو درختوں کے کٹنے سے پہلے یہاں آباد تھے
جب میری زرخیر مٹی نمی سے محروم ہو کر تڑخنے لگے گی
تب میں بارش میں بھیگی کم سن بچی کے دل سے کڑکتی بجلیوں کاخوف نکال دوں گی
جب میرے رعشہ زدہ ہاتھ بد ہیئت ہو جائیں گے
تب میں اپنے اندر اُگے ہوئے آوازوں کے جنگل کی مہربان لکڑیوں سے ایک بربط بناؤں گی اور بے نیازی کی نئی دھن ترتیب دوں گی
( جسے سن کر جنگوں میں مرنے والوں کی روحیں شاد کام ہوں گی )
جب مری چٹختی ہوئی کمزور ہڈیوں کا گودا سوکھنے لگے گا
تب میں ایک سیّارے کا بوجھ اپنی خمیدہ کمر پر لاد کر ان ہواؤں کی طرف لوٹ جاؤں گی جو میری ماں کی کوکھ میں آکسیجن بھرتی تھیں
جب میرے جاننے والے تعداد میں بے شمار ہوں گے
تب میں تنہائی کا ازلی بھید پاتال کی گہرائی سے ڈھونڈ لاؤں گی
( نیناؔ عادِل )