موجودہ زمانے میں، جب ہمارا شعور بلکہ لاشعور کا بہت سا حصہ، ہمارے تچیلات، ہمارے جذبے اور محسوسات اور ہمارے اظہارات ، شاعری ( نظمیہ اور نثریہ دونوں صورتوں میں) پر ایک ایسا کام فرض ہو گیا ہے جو اب سے پہلے محض واجب ہوا کرتا تھا۔ یہ فرض ہے اپنے باہر ( دنیا، معاشرہ ، وقت ، تاریخ وغیرہ) کا پہاڑ کاٹ کر اپنے ہونے کی جوئے شیر نکالنے کا کار کوہ کنی انجام دینا، جس میں زبان کو بطور تیشہ روبکار لایا جائے، ایک ایسی زبان جو اظہار سے زیادہ خاموشیوں کی بنی ہو۔ نینا عادل کی اس کتاب میں شاعری، اپنا یہ کار منصبی دینے میں جابجا اور اکثر و بیشتر سرخ نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے انہیں شاعری کے اہل بیت میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔اردو شاعری کا خانۂ تخلیق اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے والے ایک اور دست ہنر مند کا استقبال کرتا ہے