” کوئی بھی بطورِ خاتون پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے خاتون بنا دیا جاتا ہے“۔ یہ دعویٰ سمن دی بووار کی کی کتاب ”دوسری جنس“ 1949 کے دوسرے باب کے پہلے جملے سے مستعار لیا گیا ہے۔ بووار کا تصور ِ نسائیت فروئڈ کے تصورِنسائیت سے متصادم تھا۔ اس تصادم کو ارتفاع کیٹ ملٹ کی کتاب ”جنسی سیاست“ 1969 نے دیا جس نے فروئڈ کے پدر سری تصورات کی دریافت کی جن کے خلاف خواتین برسرِ پیکار تھیں۔ فروئڈ کا تصورِ نسائیت ”عطا“ تھا۔
یعنی فروئڈ کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ خواتین اپنی جسمانی اور جذباتی ساخت کے لحاظ سے مردوں سے مختلف ہوتی ہیں لہٰذا ان کے سوچنے کا انداز یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک شے کی دریافت ازحد ضروری ہے کہ کوئی بھی تصور ؛ بھلے اس کا تعلق لسانی معنویت سے ہو، جمالیاتی شبیہہ سے ہو، سماجی ساختوں سے ہو، نظریاتی تشکیل سے ہو یا صنفی شناخت سے ہو ان کی معنوی تفہیم صنفی سطح پر مختلف ہوگی۔ اسے یوں سمجھ لیجیے کہ کسی بھی سماجی ناہمواری کی تفہیم ادبی و غیر ادبی متون میں صنفی مزاج کے مطابق بدل جائے گی۔
سمن دی بووار کا اس بات پر شدید اختلاف ہے اس کا ماننا یہ ہے کہ خواتین کو الگ رو سے سوچنے کے لیے انہیں ایک خاص نامیاتی مزاج کے مطابق اختراع کیا جاتا ہے۔ ہم اس سے یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ”خاتون“ ہونے کے لیے جسمانی طور پر روایتی خاتون ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ جسمانی طور پر ”مرد“ کو بھی اسی روایتی طرزِ فکر کے مطابق اختراع کیا جائے تو وہ بھی خاتون ہی تصور ہوگا۔ فروئڈ کے شارحین نے اس کے نظریات کی تفسیر کی۔
مچل فروئڈ کا دفاع کرتے ہوئے یہ تصور کرتا ہے کہ فروئڈ کا تصورِ نسائیت ”عطا شدہ یا قدرتی“ نہیں تھا۔ اس کے لیے وہ مثال دیتا ہے کہ خواتین کے ہاں مردوں کی طرف جنسی میلان قدرتی نہیں ہوتا بلکہ اس میلان کو سماجی سطح پر اختراع کیا جاتا ہے۔ یعنی وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر مختلف اکائیوں کو بطور ”خاتون“ کے تیار یعنی اختراع کیا جاتا ہے۔ وہ جو ”آلہِ تناسل کے حسد“ کی بات ہوئی وہ آلہِ تناسل سے متعلقہ نہ ہوئی بلکہ اس سے جڑی ہوئی سماجی طاقت سے متعلقہ ہوئی۔
گویا مردوں اور عورتوں میں بنیادی فرق آلہ تناسل کا ہوا۔ سینڈرا گلبرٹ اور سوسن گیوبر کا ماننا ہے کہ اگرچہ خواتین کے ہاں آلہ ِ تناسل یاعضلاتی ارتفاع تو موجود نہیں لیکن اس کا معنی یہ نہ ہوا کہ ن کے ہاں ”مردانگی“ موجود نہیں تاہم انہیں ”خصی“ یا بے طاقت کردیا جاتا ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد مستعار شدہ علمیت کا ڈھنڈورا پیٹنا نہیں تھا بلکہ ”شبد“ کی شاعرہ نینا عادل کی شاعری میں موجود تانیثیت کی تحلیلِ نفسی کرنا تھا۔
مجھے ذاتی طور پر اردو ادب میں معروف تانیثی آوازوں کے ہاں پوزیشنل کونفلکٹ (فکری تصادم/تنازع) نظر آیا اور اتنا شدید نظر آیا کہ چند ایک ”تسلیم شدہ“ تانیثی آوازیں، تانیثیت سے متصادم نظر آئیں۔ جن میں خاص طور پر فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید شامل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ شبد میں موجود متن کیا ایک روایتی نسائی متن ہے، تانیثی متن ہے یا پھر تانیثیت سے متصادم متن ہے۔ اس ضمن میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ تانیثی نقادوں کا عمومی تصورِ عورت کیا ہے۔
نینا کی ایک نظم کا عنوان ہے ”چار دیواری میں چنی ہوئی عورت“، اس عنوان کو پڑھ کر میرے ذہن میں فوری طور پر فہمیدہ ریاض کی نظم ”چادر اور چار دیواری“ آگئی۔ آئیے ان دونوں نظموں کا جائزہ لیتے ہیں۔ فہمیدہ کی نظم کی پہلی سطر ہے ”حضور میں اس سیاہ چادر کا کیا کروں گی“، اس پوری نظم میں شاعرہ کی پوزیشن ایک اصطلاحی اختراع ( جس میں تاریخی سطح پر بہت سا فکشن شامل کرلیا گیاہے ) لونڈی اور اس کی معروف بائنری یعنی مذہبی پدرسری اکائی کے گرد گھومتی ہے۔
اس نظم میں فہمیدہ یہ تصور کرتی ہیں کہ خاص قسم کی مذہبی اکائیوں کے ہاں عورت بطور ایک شہوت انگیز ”جسم“ کے استعمال ہورہی ہے۔ نظم کا آخری بند ہے ”یہ چار دیواریاں، یہ چادر، گلی سڑی لاش کو مبارک /کھلی فضاؤں میں بادباں کھول کر بڑھے گا مرا سفینہ /میں آدمِ نو کی ہم سفر ہوں /کہ جس نے جیتی مری بھروسا بھری رفاقت“ اس نظم میں شاعرہ کو چادر اور دیواریاں ناپسند ہیں یعنی یہ سب پدر سری اختراعیے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ”شے“ سے اختلاف کے لیے محض یہ ہونا ہی کافی ہے کہ اس کی تعمیر و تشکیل کے پیچھے مرد کا ہاتھ ہے۔
چونکہ تانیثیت کی دوسری لہر کے تتبع میں خواتین کو پدر سری کو طاقت ور کرنے والی کسی بھی شے سے سروکار نہیں تھا۔ اور انہوں نے برابری کے ”شوق“ میں ہر شے سے انکار کیا۔ اس بات کو جانے بغیر کہ ان کا یہ اختلاف بھی پدر سری سماج اور بیانیوں کی مرہونِ منت تھا۔ فہمیدہ ریاض کی بیسیوں نظمیں ایسی ہیں جنہیں تانیثیت کے زمرے میں پیش کیا جاتا ہے تاہم وہ تانیثیت کے بنیادی قضیے سے ہی متصادم ہیں۔ ایک ایسی تخلیق کار ایک ”پوزیشن“ کو ذہن میں رکھ کر احساس کو متن کرے گی تو وہ متن نعرہ یا ایجنڈا بن جائے گا اور جلد یا بدیر اس کے ہاں کا فکری تضاد واضح ہوجائے گا۔
ان کی نظمیں جیسے کہ پہلی بار، مقابلہ ِ حسن، زبانوں کا بوسہ، وصل اک کرن بن کر وغیرہ میں جو بظاہر روایتی نسائی رو سے متصادم یعنی تانیثی بیانیوں کا رزق سمجھی جاتی رہی ہیں در حقیقت ان میں موجود بائنری تانیثیت سے ہی متصادم ہے اور ان نظموں میں شاعرہ نے سماج میں مروج روایتی نسائی پوزیشن کے حصول ہی کو اپنانے کو ہی کیفیت کیا ہے۔ گویا ان میں موجود پوزیشنل کانفلکٹ کی دریافت نے متن کی ردِ تشکیل کر دی۔ دوسری طرف نینا عادل کی نظم میں چار دیواری مرد کی اختراع کردہ چار دیواری نہیں ہے۔
بلکہ یہ چارد یواری ایکPolitical Construct ہے۔ اس نظم میں نینا عادل نے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ ہیں : بندکے اُس طرف، چناروں کے اونچے درختوں، سرحدوں تک رسائی نہیں، گویا اس نظم میں بولتی ہوئی عورت کا کلام روایتی مرد یا اس کی اختراع شدہ حدود و قیود سے نہیں بلکہ ایک خالصتاً سیاسی حد بندی سے ہے۔ اس عورت کی خواہشِ وصل کو متن کرنے والی سطر ملاحظہ کیجیے : ”میں کہ بارش کے قطروں سے نتھرے ہوئے سبز پتوں کے بوسوں سے محروم ہوں“۔
اس متن میں عورت کی بیگانگی کو متن کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ عورت ایک ایسی سماجی اکائی کے سامنے آتی ہے جو سیاسی بیگانگی (جو بطورِ جغرافیائی سرحد متشکل ہوتی ہے ) ، اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہے۔ گویا نینا کے ہاں تصورِ چارِ دیواری پدرسری سماجی اختراع نہیں بلکہ بطور ایک سیاسی شبیہہ کے سامنے آتی ہے جو ان کے ہاں فکری نمواور معاصر سیاسی منظر پر ایک آزادانہ دانش مندانہ تبصرہ ہے۔ شبد کی شاعری مختلف النوع موضوعات اور ایک سے زائد اسلوبیاتی پیرائے میں انفرادی اورکہیں کہیں اجتماعی سیاسی اور فکری شعور کا جمالیاتی اظہاریہ ہے۔
شاعرہ کی ایک مختصر نظم ”آبرو ریزی کے بعد“ ملاحظہ کیجیے : ”آبروریزی کے بعد/رات/قتل کردی جاتی ہے /اور اس کے جوان جسم پر/دن کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے“۔ اس نظم میں رات کو استعاراتی سطح پر استعمال کیا گیا ہے۔ ”رات“ کی ثنویت یہاں ”دن“ کے ساتھ بنائی گئی ہے گویا عدم روشنی کی صورتِ حال رات کہلاتی ہے۔ یہاں البتہ نینا عادل کے ہاں وہی رایتی پدرِ سری سماج کو چیلنج کرنے کا معاملہ نظر آتا ہے جو عمومی طور پر اردو ادب میں تانیثیت کا محور رہا ہے۔
تاہم رات یعنی عدم روشنی کی صورتِ حال کی آبرو ریزی کی گئی اور اس پر پدر سری سماج یعنی Potent اور طاقت اور جبر کے مرکز کے زیرِ اثر رات کی آبرو ریزی کی نمائندگی کا حق چھین لیا گیا۔ اس نظم سے براہِ راست خیال عزت کے نام پر قتل کی طرف جاتا ہے جو خالصتاً پدر سری اختراع ہے اور مرد یعنی طاقت کے مراکز اپنے مظالم یعنی قتل جیسے جرم کو جسٹیفائی کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ متشکل کرتے ہیں جو ان کے خیال میں قتل کی شدت کو معدوم کرنے کے لیے کافی ہے۔
تاہم ایک عورت کی طرف سے رات نادانستگی میں خود کو رات کے مترادف یا نسائیت کو رات سمجھنا دراصل پدرسری کو Internalize کرنا ہے۔ عام طور پر اس طرح سے متن کے خلاف نہیں جایا جاتا شاید اس قسم کا اختلاف جنسِ مخالف کی طرف سے درست بھی ہے کہ نامعلوم پوزیشن کی پرورش اور عدم اظہاریت Écriture féminine یعنی نسائی تحاریر کا ایک بنیادی خاصہ بن گیا ہے یعنی زبان کا پدرسری مزاج خواتین کے احساسات کو درست طور سے متن کرنے سے قاصر ہے۔
نینا عادل نے اس نظم میں اسی معروف ثنوی جوڑے کو دُروں یاب کیا ہے جس میں صنفِ نازک کو بیگانہ اور مرکز سے دُور حاشیے پر رکھ دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اردو ادب میں شاید ہی کوئی نسائی آواز ہوگی جو اپنی Intellectual and political position پر اپنے تخلیقی نکتہ ِ آغاز سے آخر تک اسی مقام پر قدم جمائے کھڑی رہی ہو۔ تاہم مکیّ قریشی نے انگریزی شاعری میں اپنی Intellectual position کو برقرار رکھا، ان کی شاعری انگریزی میں اور روایتی تانیثی رو سے متصادم ہے۔
شبد کی شاعری میں ایک شاعرہ کا لسانی، جمالیاتی اور اظہاری ترفع نظرآتا ہے۔ اس مجموعہ ِ کلام میں نظم کی تمام صورتیں اور غزلیں شامل ہیں۔ ان کی ایک نظم کمین گاہ پسِ متن پوری انسانی تاریخ کو Signify کرتی ہے۔ عمومی طور پر ادبی تخلیقات کو بطور حفاظتی بند یا ”Saftey valve“ کے سمجھا جاتا ہے تاہم نینا عادل کے ہاں یہ فراریت کا راستہ نہیں یا خود ترحمی نہیں بلکہ اپنا احتجاج رجسٹر کروانے کی سعی ہے۔ درحقیقت یہ شاعری کا دانش ورانہ سفرہے۔
یہاں آپ کو اے مرے شبد جیسی نظم بھی ملے گی جو حرمتِ حرف اور معنی کی تکثیریت کو بیان کرتی ہے گویا مابعد جدیدرویہ کو متن کرتی ہے۔ یہیں آپ دھروٹ جیسی مختصر نظم بھی دیکھیں گے جس میں ایک ابھاگن بڑھیا کی پرانے صندوق میں رکھی ہوئی ریشم کی ساڑھی سے محبت کو تصویر کیا جاتا ہے جو نرگسیت کے ساتھ ساتھ وقت کی دو مختلف پرتوں میں زندگی بسر کرنے والے کرداروں کو توقیر دینے کے مترادف ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی جیسے مابعد نو آبادیاتی صورتِ حال جب کردار گزشتگاں کی خواہش کرتے اور اسے اختیارنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں لیکن اس ماضی پرست میں و ہ حال میں اپنی اسپیس (مکاں ) تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مکاشفہ جیسی نظم جس میں ڈی ایچ لارنس کے 1913 میں شائع ہونے والے ناول Sons and Loversکو بین المتن کیا گیا ہے۔ اس میں ایڈی پس کمپلیکس اور Mother Fixation موضوعِ بحث تھے۔ شعور کی رو کے ذریعے پال مورل اور اس کی والدہ مریم کے درمیان ایک غیر فطری تعلق کی نشاندہی کی گئی۔
(جاری ہے )
Essay from Humsab.com.pk.