سلوب شعری اجزاء جس میں عموی طور پر لفظیات ، آہنگ، استعاراتی نظام اور دیگر فنی معاملا ت کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے ان لوازمات سے زیادہ اور سب سے اہم جس چیز اور امر پر انحصار کرتا ہے وہ تخلیق کار کا ذاتی تخلیقی تجربہ ہے۔اور اس تجربے سے برآمد ہونے والے زندگی کے مشاہداتی احساس او ر پھر اس احساس کے بطن سے اظہاریہ کی عملی تصویر سے ہی کسی بھی صاحبِ اسلوب کے انفراد کی راہ متعین ہوتی ہے۔
نینا عادل کی پہلی کتاب ’’ شبد‘‘ کی شاعری خصوصاً نظموں کے معاصر شعری منظر نامے میں انفراد کی اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظموں کی ہیتی تشکیل کا عمل خالصتاً تخلیقی تجربے اور اور وجوی سچائی سے برآمد ہو تا ہے۔ تخلیق کار صنفِ نازک ہونے کے عمومی تجربے سے باہر آ کراپنے وجود کے اُس نفیساتی منطقے کی سیاحی کراتی ہے ۔ جس منطقے کی تہذیب و تزئین فکری اور جمالیاتی حسیات سے آراستہ ان لطیف انسانی تصوارات کی مرہونِ منت ہے جن کو نظم کی بافت میں بین السطور فضا کا حصّہ بنانا ایک عام تخلیق کا ر کے بس کی بات نہیں ہے اور جس کو سنبھالنے کے لیے جہاں ایک خلاق ذہن کا ہونااہم ہے وہیں احساس کی انتہائی سطح کی پرورش و پروداخت کے دوران لفظوں کے تہذیبی و نفسیاتی سیاق سے آگاہی بھی ضروری ہے ۔
اس حوالے سے شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ’’شبد‘‘ کی شاعری خصوصاً نظموں کو بہت توجہ انگیز قرار دیتے ہوئے نکتے کی بات کی ہے کہ’’ نظم کا معاملہ یہ ہے کہ نظم کہنا ہر بار کوئی نئی بات کہنے کے مترادف ہے ۔ جب تک کہنے کو کچھ نہ ہو ، اور جو کہنا مطلوب ہو وہ بھی ایسا ہو جو عام طور پر کہا نہ گیا ہو تب تو نظم بنتی ہے ورنہ اخباری بیان ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ان نظموں میں اخباری بیان کی جگہ ذاتی تجربے کی جھلک اور جھمک جگہ جگہ نظر آتی ہے ‘‘۔ مصنوعی پن اور محض شعوری کاوشوں کے گنجلک دھندے سے پاک یہ نظمیں نفرت اور بغض ، جبراور خارجی بندشوں کے خلاف ایک تخلیق کار کی آزادی کاوہ گیت ہیں جسے مایا اینجلو نے قفس میں بند پرندوں کو گاتے سناتھا ۔ یہ گیت جس تخلیقی کرب سے برآمد ہوتا ہے وہ کرب صنفِ نازک ہونے کی وجہ سے نہیں ہزارہا پریشانیوں اورپابندیوں میں جکڑا ہوا انسان ہونے کے باعث ہے ۔
یہ نظمیں ان طبقات سے اعلانِ جنگ کرتی ہیں جن کے نزدیک زندگی کے تمام شعبوں اور امور میں اپنی اجارہ داری اور اپنے بنائے ہوئے فرسودہ اشرافیائی نظریے ہمیشہ سے اہم رہے ہیں ۔یہ طبقات اپنے نظریات کی مخصوص روایتی فکری تعبیرات سے آگے نہ تو دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو دیکھنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں ۔سفاکی و ناانصافی کی مخصوص تعبیرات سے جنم لینے والا یہ بیانیہ اپنے پنجے تاریخی ، معاشرتی ، معاشی ، سماجی اور خانگی معاملات پر بھی مضبوط کر چکا ہے ۔اس کا جبر جہاں دن بہ دن ایک عام انسان کی نفسیات کی تشکیل کرتاہے وہیں ایک حساس تخلیق کار کی فکری سمت پر بھی اثرانداز ہوتاہے ۔ شبد میں موجود نظمیں اس جبرکی مختلف شکلوں سے مزاحمت کی راہ چنتی ہیں۔ ہوا کے مخالف سمت جلتے ہوئے چراغ کی طرح لوَ دیتی ایک نظم دیکھیے!
’’کھیل جاری رہے‘‘
بے جھجک ، بے دھڑک
بے خطر وار کر
میری گردن اڑا
اورخوں سے مرے کامیابی کے اپنے نئے جام بھر
چھین لے حسن و خوبی ، انا، ادل کشی
میرے لفظوں میں لپٹاہوا مال و زر
میری پوروں سے بہتی ہوئی روشنی
میرے ماتھے پہ لکھے ہوئے سب ہنر
تجھ سے شکوہ نہیں
اے عدو میرے میں تیری ہمدرد ہوں
تیری بے چہرگی مجھ کو بھاتی نہیں
تجھ سے کیسے کہوں !!!
تجھ سے کیسے کہوں ! قتل کرنا مجھے تیرے بس میں نہیں
(اور ہو بھی اگر ، تیری کم مائیگی کا مداوانہیں )
ہاں مگر تیری دل جوئی کے واسطے
میری گردن پہ یوں تیرا خنجر رہے
(تیری دانست میں)
کھیل جاری رہے
——–
’’کراچی ہوں‘‘ اور ’’ میں ایک مہاجر کی بیٹی ہوں‘‘ جیسی نظمیں ایک علاقے میں علاقائی اور لسانی جبر اور تشدد کی سیاسی تاریخ کے ان اوراق کی طرف متوجہ کراتی ہیں جن پر کم ہی کوئی آواز اٹھتی ہے اسی طرح ’’خمیازہ ‘‘ ’’چپ کا راج ‘‘ اور ’’آزادی ‘‘ جیسی نظموں میں ریاستی مسلط کردہ جبر اور اس جبر پر عوامی سیاسی اور صحافتی خاموشی پر تخلیقی ردعمل جذباتی سطح سے بلند ہو کر مفکرانہ مکالمہ کی دعوت دیتا ہے۔
“نطشے کا مغرب جانتاہے” کی آخری سطور دیکھیے
ساڑھی کے میلے پلو سے ناداری کی بو اٹھتی ہے
آنکھوں کے گدلے گنگا میں اک آس کا دیپک جلتا ہے
اور خوف کی بے رنگ چابی سے معبد کا تالا کھلتا ہے
نطشے کا مغرب جانتا ہے
(دھن کن فقراء میں بٹتاہے)
مشرق کا خدا کیوں زندہ ہے
…….
یہ نظمیں جہاں ایک بے حد حساس تخلیق کار کی نیم مردہ آرزوؤں اور اس کی فکری اور جذباتی پیچیدگیوں سے ہمکلام کراتی ہیں وہیں معاشرے میں موجود متنوع صنفی شناختوں سے بھی تعارف کرواتی ہیں۔ عائلی زندگی سے معاشرتی زندگی اور معاشرتی زندگی سے تہذیبی زندگی تک اس کی مختلف شناختیں اپنا اثبات چاہتی ہیں مگر مرد اساس معاشرے میں وہ جگہ جگہ بے بس کر دی جاتی ہے ۔ مخلتف سماجی اور مذہبی ہتھکنڈوں کے زریعے اس کی آواز تک کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس زندان نما معاشرے میں رہتے ہوئے جس آزادی کی تمنا اور چاہ ان نظموں سے برآمد ہوتی ہے وہ آزادی سانس لینے کے عمل سے لے کر عملی زندگی تک کسی صنفی افتراق سے ماورا دکھائی دیتی ہے ۔ اور آزادی کی یہ چاہ ایک عورت کی آزادی سے زیادہ ایک انسان کی آزادی کا رجز بن کر سامنے آتی ہے ۔ ’’چاردیواری میں چنی ہوئی عورت ‘‘ ،’’ پناہ،‘‘ ’’آگ کے شکریے کے ساتھ‘‘ اور’’ انتقام‘‘ جیسی نظمیں جہاں آزادی کے خواب اگیں ترانے ہیں وہیں انسا نی فطرت کی ازلی ہوس اور اشتہا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رنج والائم اور اس کے انجام پر مبنی نوحے بھی ہیں ۔ معنیاتی تفہیم سے نکل کر اگر ان نظموں کا جائزہ نفسیاتی سطح پر کیا جائے تب بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاعری معاشرے میں موجود صنفی برتری کے مردانہ سٹیریو ٹائپ تصور کو رد کرتے ہوئے بھی ایک عورت کے ساتھ ساتھ ایک انسان کے احساسات سے مشروط شاعری ہے ۔ اس شاعری میں اندرونی بے ترتیبی اور عدم تکمیلیت کا وہ اظہار ہے جس کی برآمدگی کی ایک وجہ سائنس ، تکنیکی ، اقدار کش ترقیات کے بہم وسائل کا وہ ان دیکھا جبر ہے جو ہماری ذاتی ، خاندانی اور عائلی زندگی میں احساس اورسچے جذبوں کا گلہ گھونٹنے پر مامور ہے ۔ یہ نظمیں ہمارے خطے کا وہ سفاک منظر نامہ ہیں جس میں تہذیبی اقدار ایک میٹرو پولیٹین شہری منظر نامے میں سولی چڑھا دی جاتی ہیں ۔
کرب کی اس بے پناہ شراکت داری کے باوصف یہ نظمیں سمندر میں اٹھنے والی اس موج کی طرح ہیں جو اپنی تمام تر سفاکیوں اور شدتِ جذبات کے ساتھ اٹھتی ہیں اور راہ میں حائل ہراک شئے کو زیرو زبر کرتی گزرجاتی ہیں ۔ان نظموں میں فیشن ذدہ جدید رجحانات کی حامل زبان ہے نہ کوئی اجنبیت زدہ استعاراتی التزام ، مصرعوں میں مصنوعی پن ہے نہ بے برکتی سے بھرا سفاک لہجہ ،۔ نظم شروع ہوتی ہے تو بہتی چلی جاتی ہے
اے مرے شبد ، مرے بھید ، مہادھن میرے
رات میں خوشبو تیری ! نیند میں بوسہ تیرا
ٹھنڈ میں آگ تری تاپوں ، کھِلوں
جی اٹھوں
اپنے انسو ترے ہاتھوں کے کٹورے میں رکھوں
دیر تک تجھ سے لپٹ کر یونہی روتی جاؤں
اے مرے شبد ! ترے معنی کی ست رنگ گرہ
کبھی سلجھاؤں
کبھی انگلی میں الجھا بیٹھوں
گم رہوں تجھ میں کہیں ، تجھ میں کہیں کھو جاؤں
اے مرے شبد ! مرے عشق ، مرے افسانے
شام گل رنگ کرے ، خواب کو دو چند کرے
تری بارش میں نکھرتا ہوا سبزہ میرا
مانگ آشاؤں کی بھرتی ہوئی اس دنیا میں
اور کوئی بھی نہیں ، کوئی نہیں
تو میرا!!!
——–
ان نظموں کا ایک اور اختصاص پاک و ہند کی لسانی بولیوں کی شعریات سے استفادہ ، لوک کتھاؤں اور سنگیت کی روایات سے انسلاک قائم کرکے نئے پیرائیوں کی تلاش بھی ہے جو شاعرہ کی اپنی زمین اور ارضی حقیقتوں سے جڑت کا جہاں عکاس ہے وہیں اس خطے کے تہذیبی و ثقافتی جوہر سے اپنے وجودی جوہر کی دریافت کی طرف سفر کا اشارہ بھی ہے
“جنگل میں آواج کے ٹہرو ہر سو چپ کا راج
ٹہنڑی پھول نویں نالاوے ، پیڑ نہ دیویں باج
جیب داب کے سو گیو پٹن کے گاوے کوئی راگ
کنڈلی مار کے پھنکارے ہے ڈال ڈال پہ ناگ
ہر سکتی کو پوج پوج کے من میں گھٹ گیو سانس
دھوپ کی تیجی جھیل جھیل کے پڑ گیو پیلی گھاس”
اس کتاب کی شاعری سے برآمد ہونے والی زندگی کا چہرہ جتنا تلخ اور سفاک نظر آ رہا ہے اتناہی خیال و خواب کی کشید کردہ جہات کا وہ منظر بھی سامنے لایا ہے جو معصومیت ، سچائی ، اخلاص او ر روشنی کا بے نیاز مبلغ بھی ہے۔ ایک حبس آلود زہریلے ماحول میں شبدوں کے باغ کھلانا اور اس پر مخلتف شکلوں میں مختلف رنگوں کے ساحر پھولوں کی خوشبو سے اپنی شناخت کی خوشبو کشید کرنا ایک کٹھن کام ہوتا ہے ۔ مگر یہ بھی سچ ہے جس آواز میں کرب کا اتہاس جتنا قدیم ہوتا ہے اس آواز سے جنم لینے والا گیت اداسی کی لَے پر گایا جائے تو اتنا ہی پر تاثیر جدیداور دل آویز ہوتا ہے اس تناظر میں ’’شبد ‘‘ کے لیے لکھے گئے خالد جاوید صاحب کے پیش لفظ کی یہ سطور بہت اہم ہیں کہ ’’ بڑی شاعری کا کام متاثر کرنے سے زیادہ صدمہ پہنچانے کا ہوتا ہے … روایتی انداز میں تشریح کرکے اس غیر معمولی شاعری کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ‘‘۔
اس کتاب میں موجود غزلوں میں متنوع موضوعات کی تخلیقی پیشکش رومان اور احتجاج کی ملی جلی فضا میں سامنے آتی ہے ان غزلوں کے امکانات اور معنیاتی جہات پر الگ سے تفصیلی تجزیہ کی ضرورت ہے جو ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے ۔سلیقہ ،ہنر مندی اور جذبہ کی سیرتی و صورتی انسلاک سے نمودار ہونے والی تخلیقی پیشکش کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے۔
غبارِ ذات بیٹھے گا کوئی دن
گری ہے آخری دیوار تجھ میں
——
اس کے محل میں گونج رہا تھا جب مقتل کا سناٹا !!
شہزادی کے ماتھے پر کیا تم نے بل دیکھا کوئی ؟
سوچا کرتا پھینک دوں اک کھائی میں مسافت اور ساماں
گٹھری اٹھائے روز و شب کی اتنا تھک جاتا کوئی
….
خواب میں تجھ کو محبت کی بشارت ہوگی
یہ صلہ بھی ہے بیک وقت سزا بھی تیری
…..
آنکھیں ہوں ، خواب ہوں کہ شکستہ عمارتیں
ہر اک کھنڈر میں دیپ جلانے کا شوق ہے
….
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کوبھی ایک ناؤ بنانے کا شوق ہے
…….
میں ترا گھر بنانے میں مصروف تھی
مجھ پہ ہنستی رہی بے مکانی مری
….
ہر نئی شام اپنے پہلو میں
ایک سائے کو مارتے ہیں ہم
….
ہزار بار گوارا ہے پارسائی کو
جو میری ذات پہ بہتان تیرے جیسا ہو
——-
اک خواب کی لَو ہے چشمِ تر میں
تصویر میں کچھ نیا نہیں ہے
…….
میں نیناعادل کو ان کی پہلی کتاب کی ہندوستان سے اشاعت اور پزیرائی کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ جلد ان کا اگلا مجموعہ پاکستان سے شائع ہو گا۔