آگ کے شکریہ کے ساتھ …..ایک نظم
.
مقدس گناہوں میں بھیگی ہوئی
آگ تاپی نہ ہوتی اگر چند پل
زوس کے تنگ ریفریجریٹر میں ٹھٹھرے ہوئے
ماس کا پارسا لوتھڑا بن کہ رہ جاتی!
میں
نا ہی جیتی نا مرتی پر ومیتھئیس ؔ
اور فرشتوں کی مانند وجدان پر، میرے بھی عمر بھر ، بھید گندم کا کھلتا نہیں
آہنی قفل ازلی روایت کے گر میں نہیں توڑتی
کچھ پرندے نہ آزاد ہوتے کبھی
برف ہوتیں مگر خون کی گرم امواج میں تیرتی سرمئی، سرخ اور نقرئی مچھلیاں
کوئے احساس میں کوئی بجلی کبھی کوندتی ہی نہیں دور تک
اک حقیقت کا بے تاب دل چیرنے
کس طرح پھرچناروں سے لپٹی ہوئی سرد تن چاندنی دھوپ بنتی دسمبر میں میرے لیے ؟
میں کراچی کے ساحل پہ چلتے ہوئے کیسے گنگا کی لہروں پہ رکھتی قدم؟
کیسے دریاؤں کے دیوتا کی طرح ، سوکھی فصلوں کو کرتی تراوٹ عطا؟
کیسے منٹو کے صفحات میں منتشر ’’ نیک بو‘‘ سونگھتی ؟
( کیسے ناپاک عورت کا سر چومتی؟ )
کیوں ترس کھاتی معصوم دکھ اور فریبِ مسلسل پہ میں، فلورنٹائن کے؟
ان گنت کہکشائیں نہیں کھول پاتیں وہ اسرار جو ، کھولتا ہے بدن پر اک آزاد پل
میری آزاد سانسوں کی خالص فضا،میری سنجیدگی
حرف کی یہ طہارت !
پرومیتھئیس باخدا
کچھ مقدس گناہوں سے مشروط ہے
۔۔۔۔۔۔۔ نیناؔ عادل۔۔۔۔۔۔
(یہ نظم علی گڑھ سے شائع ہوئے ہونے والی ادبی پرچے امروز کے دسویں شمارے میں شامل ہے )