رادہ تھا کہ ” شبد” فرصت میں اطمنان سے پڑھوں گا مگر کتاب کھولی تو اس نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔”ایک سیارے کا بوجھ “میرے دل پر ٹھہر گیا۔میں کرب کے بوجھ تلے آگے بڑھتا چلا گیا،میری سانسیں اکھڑنے لگیں مگر کہیں نہیں رکا۔کیسی عجیب اور انوکھی نظمیں تھیں جو افسردہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لطف اور مسرت سے بھی آشنا کرتی چلی جا رہی تھیں۔میں ساری نظمیں ایک ساتھ پڑھ گیا۔ان نظموں کی دُھن مانوس نہیں تھی۔یہ لہجہ منفرد تھا جو کسی کے زیرِ اثر نہیں تھا۔مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اب تک ان نظموں اور اس شاعرہ سے کیوں کر آگاہ نہ ہو سکا۔خالص تخلیقی جوہر میں سے پھوٹتی ہوئی یہ نظمیں کسی تعریف اور ستائش کے بغیر اپنی شناخت کروا سکتی ہیں۔مجھے خوشی ہوئی کہ ان نظموں کے ساتھ کسی پیشہ ور مبصر کا مضمون نہیں تھا۔خالد جاوید کا مضمون سنجیدی قاری کے لیےاُس سمت کی نشان دہی کرتا ہے جہاں تخلیقی جوہر شاعری میں متشکل ہوا ہے۔اس شاعری کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔میں نے ان نظموں میں اپنے کرب کو دریافت کیا۔ایسا کرب جو ہر لکھنے والے کے تخلیقی جوہر کا منبع ہوتا ہے۔ان نظموں پر تفصیلی مکالمہ ہونا چاہیے۔ان نظموں میں حیرت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ایسی حیرت جس میں ان دیکھے اسرار پوشیدہ ہیں۔میں ایک بار پھر ان پُر اثر نظموں کو پڑھتے ہوئے مرگ و حیات کے پُر پیچ زاویوں میں انسانی کرب کی حسیات کو نئی سطحوں پر دریافت کروں گا۔دریافت کی شادمانی ہی ہمیں زندہ رکھتی ہے۔موت ہمیں تھکا نہیں سکتی۔ رادہ تھا کہ ” شبد” فرصت میں اطمنان سے پڑھوں گا مگر کتاب کھولی تو اس نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔”ایک سیارے کا بوجھ “میرے دل پر ٹھہر گیا۔میں کرب کے بوجھ تلے آگے بڑھتا چلا گیا،میری سانسیں اکھڑنے لگیں مگر کہیں نہیں رکا۔کیسی عجیب اور انوکھی نظمیں تھیں جو افسردہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لطف اور مسرت سے بھی آشنا کرتی چلی جا رہی تھیں۔میں ساری نظمیں ایک ساتھ پڑھ گیا۔ان نظموں کی دُھن مانوس نہیں تھی۔یہ لہجہ منفرد تھا جو کسی کے زیرِ اثر نہیں تھا۔مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اب تک ان نظموں اور اس شاعرہ سے کیوں کر آگاہ نہ ہو سکا۔خالص تخلیقی جوہر میں سے پھوٹتی ہوئی یہ نظمیں کسی تعریف اور ستائش کے بغیر اپنی شناخت کروا سکتی ہیں۔مجھے خوشی ہوئی کہ ان نظموں کے ساتھ کسی پیشہ ور مبصر کا مضمون نہیں تھا۔خالد جاوید کا مضمون سنجیدی قاری کے لیےاُس سمت کی نشان دہی کرتا ہے جہاں تخلیقی جوہر شاعری میں متشکل ہوا ہے۔اس شاعری کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔میں نے ان نظموں میں اپنے کرب کو دریافت کیا۔ایسا کرب جو ہر لکھنے والے کے تخلیقی جوہر کا منبع ہوتا ہے۔ان نظموں پر تفصیلی مکالمہ ہونا چاہیے۔ان نظموں میں حیرت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ایسی حیرت جس میں ان دیکھے اسرار پوشیدہ ہیں۔میں ایک بار پھر ان پُر اثر نظموں کو پڑھتے ہوئے مرگ و حیات کے پُر پیچ زاویوں میں انسانی کرب کی حسیات کو نئی سطحوں پر دریافت کروں گا۔دریافت کی شادمانی ہی ہمیں زندہ رکھتی ہے۔موت ہمیں تھکا نہیں سکتی۔ رادہ تھا کہ ” شبد” فرصت میں اطمنان سے پڑھوں گا مگر کتاب کھولی تو اس نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔”ایک سیارے کا بوجھ “میرے دل پر ٹھہر گیا۔میں کرب کے بوجھ تلے آگے بڑھتا چلا گیا،میری سانسیں اکھڑنے لگیں مگر کہیں نہیں رکا۔کیسی عجیب اور انوکھی نظمیں تھیں جو افسردہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لطف اور مسرت سے بھی آشنا کرتی چلی جا رہی تھیں۔میں ساری نظمیں ایک ساتھ پڑھ گیا۔ان نظموں کی دُھن مانوس نہیں تھی۔یہ لہجہ منفرد تھا جو کسی کے زیرِ اثر نہیں تھا۔مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اب تک ان نظموں اور اس شاعرہ سے کیوں کر آگاہ نہ ہو سکا۔خالص تخلیقی جوہر میں سے پھوٹتی ہوئی یہ نظمیں کسی تعریف اور ستائش کے بغیر اپنی شناخت کروا سکتی ہیں۔مجھے خوشی ہوئی کہ ان نظموں کے ساتھ کسی پیشہ ور مبصر کا مضمون نہیں تھا۔خالد جاوید کا مضمون سنجیدی قاری کے لیےاُس سمت کی نشان دہی کرتا ہے جہاں تخلیقی جوہر شاعری میں متشکل ہوا ہے۔اس شاعری کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔میں نے ان نظموں میں اپنے کرب کو دریافت کیا۔ایسا کرب جو ہر لکھنے والے کے تخلیقی جوہر کا منبع ہوتا ہے۔ان نظموں پر تفصیلی مکالمہ ہونا چاہیے۔ان نظموں میں حیرت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ایسی حیرت جس میں ان دیکھے اسرار پوشیدہ ہیں۔میں ایک بار پھر ان پُر اثر نظموں کو پڑھتے ہوئے مرگ و حیات کے پُر پیچ زاویوں میں انسانی کرب کی حسیات کو نئی سطحوں پر دریافت کروں گا۔دریافت کی شادمانی ہی ہمیں زندہ رکھتی ہے۔موت ہمیں تھکا نہیں سکتی۔ رادہ تھا کہ ” شبد” فرصت میں اطمنان سے پڑھوں گا مگر کتاب کھولی تو اس نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔”ایک سیارے کا بوجھ “میرے دل پر ٹھہر گیا۔میں کرب کے بوجھ تلے آگے بڑھتا چلا گیا،میری سانسیں اکھڑنے لگیں مگر کہیں نہیں رکا۔کیسی عجیب اور انوکھی نظمیں تھیں جو افسردہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لطف اور مسرت سے بھی آشنا کرتی چلی جا رہی تھیں۔میں ساری نظمیں ایک ساتھ پڑھ گیا۔ان نظموں کی دُھن مانوس نہیں تھی۔یہ لہجہ منفرد تھا جو کسی کے زیرِ اثر نہیں تھا۔مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اب تک ان نظموں اور اس شاعرہ سے کیوں کر آگاہ نہ ہو سکا۔خالص تخلیقی جوہر میں سے پھوٹتی ہوئی یہ نظمیں کسی تعریف اور ستائش کے بغیر اپنی شناخت کروا سکتی ہیں۔مجھے خوشی ہوئی کہ ان نظموں کے ساتھ کسی پیشہ ور مبصر کا مضمون نہیں تھا۔خالد جاوید کا مضمون سنجیدی قاری کے لیےاُس سمت کی نشان دہی کرتا ہے جہاں تخلیقی جوہر شاعری میں متشکل ہوا ہے۔اس شاعری کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔میں نے ان نظموں میں اپنے کرب کو دریافت کیا۔ایسا کرب جو ہر لکھنے والے کے تخلیقی جوہر کا منبع ہوتا ہے۔ان نظموں پر تفصیلی مکالمہ ہونا چاہیے۔ان نظموں میں حیرت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ایسی حیرت جس میں ان دیکھے اسرار پوشیدہ ہیں۔میں ایک بار پھر ان پُر اثر نظموں کو پڑھتے ہوئے مرگ و حیات کے پُر پیچ زاویوں میں انسانی کرب کی حسیات کو نئی سطحوں پر دریافت کروں گا۔دریافت کی شادمانی ہی ہمیں زندہ رکھتی ہے۔موت ہمیں تھکا نہیں سکتی۔ رادہ تھا کہ ” شبد” فرصت میں اطمنان سے پڑھوں گا مگر کتاب کھولی تو اس نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔”ایک سیارے کا بوجھ “میرے دل پر ٹھہر گیا۔میں کرب کے بوجھ تلے آگے بڑھتا چلا گیا،میری سانسیں اکھڑنے لگیں مگر کہیں نہیں رکا۔کیسی عجیب اور انوکھی نظمیں تھیں جو افسردہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لطف اور مسرت سے بھی آشنا کرتی چلی جا رہی تھیں۔میں ساری نظمیں ایک ساتھ پڑھ گیا۔ان نظموں کی دُھن مانوس نہیں تھی۔یہ لہجہ منفرد تھا جو کسی کے زیرِ اثر نہیں تھا۔مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اب تک ان نظموں اور اس شاعرہ سے کیوں کر آگاہ نہ ہو سکا۔خالص تخلیقی جوہر میں سے پھوٹتی ہوئی یہ نظمیں کسی تعریف اور ستائش کے بغیر اپنی شناخت کروا سکتی ہیں۔مجھے خوشی ہوئی کہ ان نظموں کے ساتھ کسی پیشہ ور مبصر کا مضمون نہیں تھا۔خالد جاوید کا مضمون سنجیدی قاری کے لیےاُس سمت کی نشان دہی کرتا ہے جہاں تخلیقی جوہر شاعری میں متشکل ہوا ہے۔اس شاعری کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔میں نے ان نظموں میں اپنے کرب کو دریافت کیا۔ایسا کرب جو ہر لکھنے والے کے تخلیقی جوہر کا منبع ہوتا ہے۔ان نظموں پر تفصیلی مکالمہ ہونا چاہیے۔ان نظموں میں حیرت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ایسی حیرت جس میں ان دیکھے اسرار پوشیدہ ہیں۔میں ایک بار پھر ان پُر اثر نظموں کو پڑھتے ہوئے مرگ و حیات کے پُر پیچ زاویوں میں انسانی کرب کی حسیات کو نئی سطحوں پر دریافت کروں گا۔دریافت کی شادمانی ہی ہمیں زندہ رکھتی ہے۔موت ہمیں تھکا نہیں سکتی۔ رادہ تھا کہ ” شبد” فرصت میں اطمنان سے پڑھوں گا مگر کتاب کھولی تو اس نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔”ایک سیارے کا بوجھ “میرے دل پر ٹھہر گیا۔میں کرب کے بوجھ تلے آگے بڑھتا چلا گیا،میری سانسیں اکھڑنے لگیں مگر کہیں نہیں رکا۔کیسی عجیب اور انوکھی نظمیں تھیں جو افسردہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لطف اور مسرت سے بھی آشنا کرتی چلی جا رہی تھیں۔میں ساری نظمیں ایک ساتھ پڑھ گیا۔ان نظموں کی دُھن مانوس نہیں تھی۔یہ لہجہ منفرد تھا جو کسی کے زیرِ اثر نہیں تھا۔مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں اب تک ان نظموں اور اس شاعرہ سے کیوں کر آگاہ نہ ہو سکا۔خالص تخلیقی جوہر میں سے پھوٹتی ہوئی یہ نظمیں کسی تعریف اور ستائش کے بغیر اپنی شناخت کروا سکتی ہیں۔مجھے خوشی ہوئی کہ ان نظموں کے ساتھ کسی پیشہ ور مبصر کا مضمون نہیں تھا۔خالد جاوید کا مضمون سنجیدی قاری کے لیےاُس سمت کی نشان دہی کرتا ہے جہاں تخلیقی جوہر شاعری میں متشکل ہوا ہے۔اس شاعری کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔میں نے ان نظموں میں اپنے کرب کو دریافت کیا۔ایسا کرب جو ہر لکھنے والے کے تخلیقی جوہر کا منبع ہوتا ہے۔ان نظموں پر تفصیلی مکالمہ ہونا چاہیے۔ان نظموں میں حیرت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ایسی حیرت جس میں ان دیکھے اسرار پوشیدہ ہیں۔میں ایک بار پھر ان پُر اثر نظموں کو پڑھتے ہوئے مرگ و حیات کے پُر پیچ زاویوں میں انسانی کرب کی حسیات کو نئی سطحوں پر دریافت کروں گا۔دریافت کی شادمانی ہی ہمیں زندہ رکھتی ہے۔موت ہمیں تھکا نہیں سکتی۔