“آزادی کا خواب دیکھتا شبد”
شبد جو کہ ایک سنسکرت لفظ ہے اس کا ایک معنی ” آواز ” بھی ہے ، یعنی یہ شاعری ایک ایسی آواز کا اظہار کرب ہے جو آزادی کی متلاشی ہے – مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ “آزادی ” کے معنی کیا ہیں اور کس سے اور کیسی آزادی ؟ عموماً ہوتا یہ ہے کہ ہم تخلیق کار کی زندگی کے آئینہ میں اس کی تخلیق کو دیکھنے کا کام کرتے ہیں ، جو کہ قرأت کا کوئی اچّھا طریقہ نہیں یا پھر یہ ہوتا ہے کہ ہم متن سے تخلیق کار تک کا سفر طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ طریقہ بھی ایک اندھی گلی ہے جہاں دھوکے ہی دھوکے ہیں کیونکہ متن کا سچ اور اس کی دنیا متن سے شروع ہو کر متن ہی پر ختم ہو جاتے ہے – ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ ہم اس معنی کو پانا چاہتے ہیں جو تخلیق کار کے پاس تھے ، مگر یہاں یہ بات دھیان رکھنے کی ہے کہ قرأت بذات خود ایک تخلیقی عمل ہے ، قاری جب متن کو پڑھتا ہے تو وہ معنی برآمد نہیں کرتا ، اس میں معنی پروتا ہے … کچھ دوست یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس نقطہ آغاز کو پانا چاہتے ہیں ، جس سے تخلیق کار متاثر ہوا ، مگر اس کے لئے تخلیق کار تک کا سفر کیوں ؟ یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ ہر تخلیق کار شعوری اور لا شعوری طور پر اپنے ماحول اور زندگی سے متاثر ہوتا ہے مگر اس کی تلاش متن سے پرے جا کر نہیں کی جاتی ، متن ہی میں یہ راز نہاں ہوتا ہے ، اس کے ٹریسز متن ہی میں موجود ہوتے ہیں اور وہ متن میں رہ کر ڈیکوڈ کئے جاتے ہیں ، اس لئے جس آزادی کے بات میں نے اوپر کی اس کی چاہ نینا کے کلام میں جا بہ خا بکھری پڑی ہے اور آزادی کی آرزو ہی اس کی اداسی کا اصل سبب ہے …
نینا کی شاعری کو اگر بغور پڑھا جائے تو اس میں ایک بھری پوری عورت کہیں نظر نہیں آتی ….ایک لڑکی ہے جسے زندگی کی چھوٹی بڑی محرومیوں نے نفسیاتی طور پر زخمی کیا ہے ، وہ ان زخموں کی ٹیس کو خود میں ایسے اتار چکی ہے کہ کسی بھی خوشی کا مرہم اس سے اس درد اس اداسی کو چھین نہیں پاتا …. وہ ڈری ہوئی ہے اوراس ڈر کے اظہار کا کوئی اور ذریعہ اس کے پاس نہیں سواے تخلیق کے ، جس کے راستے وہ آزادی تلاش کرتی ہے اس اداسی سے اس ڈر سے اس مایوسی سے اور اس اظہار کا جذبہ اتنا سچا ہے کہ ہم اسے سچی شاعری کہہ اٹھتے ہیں ، مگر سچ تو یہ ہے کہ شاعری نینا کے لئےآزادی کی تلاش ہے ( شاعری تو یوں بھی ایک تلاش ہی ہے … جانے ہوئے کا اظہار نہیں ) .. جس کر راستہ “شبد ” سے ہو کر گزرتا ہے ، شبد نینا کے لئے” برہم” کی صورت ہے، اس کا رازدار ، اس کا دوست ، اور اس کی رسائی ان سرحدوں تک ہے ہی نہیں جو آزادی کے اس سپنے سے ماورا ہوں ..
نینا، جو کہ میری ایک بیحد عزیز دوست بھی ہے ، اس کے شعری سفر کو میں کافی سالوں نے دیکھتا آیا ہوں ، اس کی شاعری کے بارے میں یہ خیال کہ وہ کسی مغرب کے تخلیق کار سے متاثر ہے ایک سہل پسندانہ خیال بھر ہے … جس کھڑی بولی کے سنگیت کی بات خالد جاوید صاحب نے کی ہے وہ سنگیت کومل سروں کا سنگیت ہے یعنی اس کا پہلا واسطہ “رے” کے دھارک “برہما” اور “گا” کی دھارنی “سرسوتی ” سے ہے پھر گنیش اور سوریا سے .. ” ما” جو کی ایک تیور سر ہے نینا کی شاعری میں وہ نہیں سنائی پڑتا ….. نینا کی شاعری کے حوالے سے میں نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے کہ سرحد پار کے نئی نسل کے جو تخلیق کار مجھے بیحد پسند ہیں ان میں نینا کا شمار ہوتا ہے … وہ اپنی نظم میں یہ سوال ضرور اٹھا لے ” پانی راستہ کیسے ڈھونڈھے” مگر اس کی شاعری میں جذبے کی وہ روانی ہے جو اپنا راستہ آپ بنانا جانتی ہے …اور یہ پانی وہاں بھی اپنا راستہ بنا رہا ہے جہاں پہلے اس کا گزر نہ تھا
اس کتاب میں نظمیں غزلیں دونوں شامل ہیں ، دونوں ہی متاثر کن ہیں مگر نینا کی نظم میں جو دنیا آباد ہے وہی اصلی نینا عادل ہے …. ایک بیحد خوبصورت کتاب کے لئے مبارکباد …. اس کتاب میں خالد جاوید صاحب کے دیباچہ نے چار چاند لگا دئے ہیں . جسے پڑھ کر بیحد لطف بھی آیا اور بہت ہی باتوں پر روشنی بھی پڑی-
عادل رضا منصوری